سیکولر مسلمان اور عیدِ قربان


یاورعباس ہمارے مومن بھائی ہیں۔ زنجیرزنی تو کیا سینہ کوبی سے بھی بھائی کی جان جاتی ہے مگر محافلِ عاشورہ کو دل کھول کر سپانسر کیا کرتے ہیں۔ پچھلے محرم سے قبل میں نے بے تکلفی سے ایک تجویز پیش کی۔

”یاوربھائی، ہر سال غمِ حسین میں لاکھوں لیٹر انسانی خون سڑکوں پہ بہادیا جاتا ہے۔ اگر اس کی بجائے یہ خون بلڈ بنک میں جمع کردیا جائے تو ایمرجنسی میں کسی کی زندگی بچانے کے کام آسکتا ہے“۔

ایک دم بھڑک گئے ”یہ تم نہیں، تمہارا اندر کا ناصبی بول رہاہے۔ دنیا میں کتنے ایکسیڈ ںٹ ہوتے ہیں اور خون ضائع ہوتا ہے۔ صرف بلڈ ٹسٹ کے بہانے لاکھوں لیٹر خون نکال کرڈسٹ بن کی نذر کردیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہمارے مذہب کی بات آتی ہے تو تمہیں انسانیت کا غم ستانے لگتا ہے“۔

عرض کیا ”بھائی، ہر کام کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے۔ چونکہ ایک مذہبی فریضہ خدا کو خوش کرنے کے لئے ادا کیا کرتے ہو تو پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ بات آپ کے مذہب میں درکار ہے بھی یا پھر ایویں ہی اسے عبادت سمجھ کر لگے ہوئے ہو“۔

”کیا تم نے مذہب پڑھا بھی ہے؟ کبھی علامہ آیت اللہ مظہری کی کتب پڑھو تو پتہ چلے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ “۔
”یار میں ایک مسلمان ہوں اور میرے خیال میں وہ چیز مذہبِ اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہوسکتی جو قرآن میں صریحاً مذکور نہ ہو“۔

”اچھا۔ اب تم قرآن کو علامہ مظہری سےزیادہ سمجھ گئے ہو؟ انہوں نے14 سال نجف و مشہد میں دین پڑھا ہے۔ 300 دینی کتب لکھی ہیں۔ نئے ایرانی سماجی ماڈل کے موجد ہیں اورانہیں ایران جیسے ملک میں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے۔ معاف کرو یار، ہمارے اسلام کے لئے تو وہی حجت ہیں بھائی“۔

ایک سیکولر کا حلقۂ احباب وسیع ہوتا ہے۔ اپنے دوست غلام رسول قادری کو ایک سچا عاشق رسول سمجھتا ہوں۔ چند برس پہلے میلادالنبی پر ملتان میں 60 من حلیم کی دیگ بنانے جایا کرتے تھے۔ پچھلی عید پر لاہور میں ”سرکارمدینہ“ کے لئے ہزار پونڈ وزنی برتھ ڈے کیک بھی تیار کیا تھا۔

ایک بار ربیع الاول کے ایام میں عرض کیا ”قادری بھائی، ہزار پونڈ وزنی کیک کی بجائے اگر میلاد کی خوشی میں ہر غریب کے گھر ایک ماہ کا خشک راشن دے دیا جائے تو کسی کے بچے فاقوں سے بچ سکتے ہیں“۔

غصہ ہوگئے ”یہ تم نہیں، تمہارے اندر کا وہابی بول رہا ہے۔ نیو ائر فنکشن اور چودہ اگست پرکروڑوں اڑا دیے جاتے ہیں۔ ٹکے ٹکے کے بندے کی برتھ ڈے پر درجن کیک کاٹے جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم سرکار کی آمد کی خوشی منانا چاہتے ہیں تو تمہیں انسانیت کاغم ستانے لگ جاتا ہے“۔

عرض کیا ”بھائی، ہر کام کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے۔ چونکہ ایک مذہبی فریضہ خدا کو خوش کرنے کے لئے ادا کیا کرتے ہو تو پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ بات آپ کے مذہب میں درکار ہے بھی یا پھرایویں ہی اسے عبادت سمجھ کر لگے ہوئے ہو“۔

”کیا تم نے مذہب پڑھا بھی ہے؟ کبھی علامہ طاہرالقادری کی کتب پڑھو تو پتہ چلے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ “۔

”یار میں ایک مسلمان ہوں اور میرے خیال میں وہ چیز مذہب کا ضروری حصہ نہیں ہوسکتی جو قرآن میں صریحاً مذکور نہ ہو“۔

”اچھا۔ اب تم قرآن کو علامہ طاہرالقادری سےزیادہ سمجھتے ہو؟ انہوں نے خواب میں امام ابوحنیفہ سے بھی دین پڑھا ہے۔ 600 دینی کتب لکھی ہیں۔ منہاج القران کے نام سے جدید ایجوکیشن سسٹم کے بانی ہیں۔ اور انہیں انڈیا جیسے ملک میں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے۔ معاف کرو یار، ہمارے اسلام کے لئے تو وہی حجت ہیں بھائی“۔

اگرچہ دیوبندیوں کی پاکستانی برانچ، سیکولرزم کو لادینیت سمجھتی ہے لیکن ہم خود کو اس لئے دیوبندی گردانتے ہیں کہ اسی کو اصلی سیکولرزم مانتے ہیں۔ یوں تو ہمارے سوالات پہ سارا سال ہی احباب چیں بجیں رہتے ہیں مگر ایامِ حج میں دیوبندی دوستوں سے بالخصوص گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ کل پرسوں عطاء اللہ فاروقی سے عرض کیا۔

”فاروقی بھائی، ہر سال پاکستان میں بڑی عید پر 2 کروڑ جانور ذبح کیے جاتے ہیں جن کا اکثر گوشت ضائع ہو جاتا ہے اور کھال اونے پونے بک جاتی ہے۔ اس کی بجائے اگریہ رقم مسلمانوں کی اجتماعی خیر کے لئے کسی وقف میگا پراجیکٹ میں لگا دی جائے تو ملک میں عمومی بیروزگاری اور غربت میں نمایاں کمی آسکتی ہے“۔

آپے سے باہر ہوگئے ”یہ تم نہیں، تمہارے اندر کا لبرل بول رہا ہے۔ لاکھوں کے میکڈونلڈ برگر اور پیزے کھاتے ہوئے تمہیں یہ سوچ نہیں آتی؟ زرداری اور نواز کو نظر بد سے بچانے درجن بھر کالے بکرے بھینٹ کردیئے جاتے ہیں، اس وقت تمہیں غریب یاد نہیں آتے مگر جب ہم ایک دینی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو تمہیں انسانیت کاغم ستانے لگ جاتا ہے“۔

عرض کیا ”بھائی، ہر کام کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے۔ چونکہ ایک مذہبی فریضہ خدا کو خوش کرنے کے لئے ادا کیا کرتے ہو تو پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ بات آپ کے مذہب میں درکار ہے بھی یا پھر ایویں ہی اسے عبادت سمجھ کر لگے ہوئے ہو“۔

”کیا تم نے مذہب پڑھا بھی ہے؟ کبھی مفتی تقی عثمانی کی کتب پڑھو تو پتہ چلے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ “۔
”یار میں ایک مسلمان ہوں اور میرے خیال میں وہ چیز مذہب کا ضروری حصہ نہیں ہوسکتی جو قرآن میں صریحاً مذکور نہ ہو“۔

”اچھا۔ اب تم قرآن کو مفتی تقی عثمانی سےزیادہ سمجھتے ہو؟ انہوں نے درس نظامی کے علاوہ 3 ایم اے بھیکیے ہوئے ہیں۔ درجنوں دینی کتب لکھی ہیں۔ میزان بنک کی صورت میں جدید اسلامی معاشی نظام کا ڈھانچہ پیش کیا ہے۔ اورانہیں سعودی عرب جیسےملک میں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے۔ معاف کرو یار، ہمارے اسلام کے لئے تو وہی حجت ہیں بھائی“۔

برداران کرام!

ہم سیکولرمسلمانوں کا بس اتنا مطالبہ ہے کہ ہراجتماعی دینی عمل بارے ” اسلامی نظریاتی کونسل“ نامی آئنی جمہوری ادارے سے ہی راہنمائی لی جائے اور ایسے معاملات میں فردی فتوی جات پہ قدغن لگادی جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل میں پاکستان کے ہر مکتبِ فکر کے نمائندہ علماء موجود ہیں جواسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ قوم کو دینی ایشوز بارے یکسو کردیں۔ ہر وہ دینی معاملہ جو عوام کے نارمل روٹین کو متاثر کرتا ہو اورقومی معیشت پہ اثر انداز ہوتا ہو، وہ نظریاتی کونسل کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

مثلاً عید الاضحی کی قربانی بارے عالم اسلام کے کئی ثقہ علماء کی رائے یہ بھی ہے کہ ہر گھرانے پر فقط ایک ہی قربانی کردینا کافی ہے۔ مزید یہ کہ یہ ایک سنت عمل ہے اوراسکو ادا نہ کرنے پر کوئی وعید یا گناہ نہیں ہے۔ کچھ علماء تو اس سے آگے جاکریہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف حاجی آدمی کے لئے واجب ہے۔ مارکیٹ میں ایسے عالمِ دین بھی مل جائیں گے جو اس سارے عمل کو سنت کی بجائے بدعت کہتے ہیں۔

سیکولرحضرات کو انسانوں کے کسی گروہ کے عقائد پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاوقتیکہ یہ امن عامہ اور مفاد عامہ کو متاثر نہ کرتے ہوں۔

عیدِ قربان پر قربانی کا اجتماعی عمل، شہری پالوشن اور متعدی بیماریوں کے تناظر میں ایک بڑا فیکٹر ہے۔ یہ ایک بڑا معاشی ایونٹ ہونے کے ناطے ملکی معیشت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ( اور اگر خدا سمجھ دے تو ایک ایسا ملک، جہاں غیرمسلموں کو برابر شہری حقوق حاصل ہوں اور وہ بیچارے اپنی راحت کے لئے ٹیکس بھی اداکیا کرتے ہوں تو اس ملک میں ایسے ایونٹ کی اخلاقی اور سماجی حیثیت کا تعین ہونا ضروری ہوجاتا ہے)۔

چنانچہ، ہمارےہاں کی پہلی ترجیح یہ ہو کہ مختلف الخیال علمائے کرام کا ایک متقفہ آئنی فورم وجود میں آجائے۔ (خوش قسمتی سے 1973ء کے آئین میں ایسا فورم مہیا کردیا گیا ہے)۔ دوسرا کام ہے اس فورم کو فعال کرنے کا جو کہ حکومت (پارلمنٹ) کی ذمہ داری ہے۔ (بدقسمتی سے ہرحکومت کی کوشش رہتی ہے کہ مولوی اس قوم کو لڑاتے رہیں تاکہ وہ اطمینان سے“کارروائی“ ڈال سکے)۔ تیسرا کام، اہل فکر ودانش کے کرنے کا ہے کہ عوام کو اس آئینی فورم بارے آگاہی دیں اوراسلامی نظریاتی کونسل کو مضبوط کریں کیونکہ ہر مسلک کے مولوی نے اپنی دکانداری کی خاطر، اس کونسل بارے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلاکررکھا ہے۔ (چنانچہ، یاور عباس کو باور کرایا گیا کہ اس کونسل میں سنی علماء کی اجارہ داری ہے۔ قادری بھائی کو سمجھایا گیا کہ یہ وہابی گستاخوں کا ٹولہ ہے جبکہ فاروقی بھائی کے دماغ میں ٹھونسا گیا کہ دین دشمن مغربی طاقتوں نے ماڈرن اسلام لانے کے لئے یہ پاکھنڈ بنوا رکھا ہے)۔

برسبیل تذکرہ، ہمیں تورسمِ قربانی بارے جناب غامدی صاحب کا نکتہ نظر زیادہ معقول نظرپڑتا ہے۔ غامدی صاحب کی مدلل گفتگوسے عوام جلد متاثر ہوجایا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب جنرل پرویزمشرف نے غامدی صاحب کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بنایا تو ہمیں امید ہوئی کہ اپنی قوتِ استدلال سے وہ سب علماء کو ایک پیج پر لے آئیں گے۔ مگر وہ تو درمیان میں ہی کونسل کو چھوڑ کرچلے گئے۔ غامدی صاحب کے ایک روشن خیال پیروکار سے اس بارے شکوہ کیا تو جواب ملا کہ ” غامدی صاحب جیسا ”سکالربندہ“ بھلا ان کٹھ ملاؤں کی بیٹھک میں کیوں اپنا وقت ضائع کرتا؟ فیا اسفاء کہ شخصیت پرستی ہماری قومی نفسیات کا ناگزیرحصہ ہے۔

بہرحال، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، قربانی کی مقداراور طریقہ کار بارے قوم کی واضح راہنمائی کرے اور حکومت اس کی دی ہوئی رولنگ کے کماحقہ نفاذ کی ذمہ داری اٹھائے۔
برین ٹسٹ: اوپر دیے گئے تین تمثیلاتی مکالمہ جات میں سے دو کی آپ تائید کرتے ہیں جبکہ ایک پرآپ کو غصہ آتا ہے تو آپ سیکولرزم کو“لادینیت“ سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments