مجروح صحافت اور عمران خان کی ذمہ داری


ملک میں آزادی اظہار اور میڈیا پر عائد درپردہ پابندیوں کے حوالے سے مسائل اب کسی راز کی حیثیت نہیں رکھتے۔ حکومتی ادارے اپنے اختیار کے علاوہ اشتہارات کی صورت میں وسائل کو بھی مرضی کی خبروں و تبصروں کی تشہیر کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ میڈیا مالکان کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے تو انہی خطوط پر کام کرنا ہوگا جو انہیں فراہم کئے گئے ہیں۔ بصورت دیگر انہیں اشتہارات کی صورت میں مالی معاونت سے محروم تو کیا ہی جائے گا ،ٹیکنیکل معاملات پر دسترس کی وجہ سے کسی ٹیلی ویژن چینل یا اخبار کی اس کے ناظرین اور قارئین  تک فراہمی بھی ناممکن بنا دی جائے گی۔ یہاں یہ واضح ہونا چاہئے کہ ملک کی حکومتوں اور ان کے زیر نگیں کام کرنے والے اداروں کے پاس میڈیا کو دباؤ میں رکھنے کے لئے صرف سرکاری اشتہارات کی صورت میں ’مؤثر اختیار‘ ہی موجود نہیں ہے بلکہ ملک میں کام کرنے والے تمام کمرشل ادارے بھی اسی میڈیا ہاؤس کو اشتہار فراہم کرتے ہیں جو حکومت اور اس کے اداروں کی نگاہوں میں درست خطوط پر کام کررہا ہو۔ اس طرح ملک کے پرائیویٹ اور منہ زور میڈیا کو مناسب طریقے سے کنٹرول کرنے کا قابل عمل اور مؤثر انتظام کرلیا گیا ہے۔ ملک کی عدالتیں اس انتظام سے مطمئن اور شاداں ہیں ، اس لئے فی الوقت یہ امکان نہیں ہے کہ ملک میں آزادی اظہار کے لئے کوئی طاقتور تحریک دیکھنے میں آئے گی۔

ملک کے میڈیا مالکان تو اپنے مفادات کے اسیر ہیں ہی لیکن صحافیوں کی اکثریت بھی حرف کی حرمت اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونے کی بجائے متعدد اختلافات کا شکار ہے۔ ملک میں صحافیوں کی کوئی نمائیندہ اور متفقہ تنظیم موجود نہیں ہے۔ صحافیوں کو نظریاتی گروہوں میں بانٹ کر ان کی پیشہ وارانہ یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے نظریاتی صحافت اور تنظیم سازی کا جو بیج سابق آمر جنرل (ر) ضیا الحق کے دور میں لگایا گیا تھا، وہ اب پھل دار درخت بن چکا ہے۔ ملک کے صحافی جب اپنے یا اپنے ادارے کے مفاد کے محافظ نہیں ہوتے تو وہ کسی نہ کسی نظریاتی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا دبوچنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایسے میں جو طاقتیں ملک میں آزادانہ رائے اور خبر کی ترسیل کی روایت کو ختم کرنا چاہتی ہیں، ان کے خلاف مزاحمت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

عام طور سے مختلف میڈیا ہاؤسز کے مالکان اپنے ملازم صحافیوں کو کمرشل مقاصد کا سانجھی داربنا لیتے ہیں۔ خبروں، کالموں و تبصروں اور ٹی وی نشریات کو مد مقابل میڈیا ہاؤسز کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرنے کی روایت مضبوط کی جارہی ہے ۔ یوں تو کمرشل اور پرائیویٹ میڈیا ہاؤسز کی مقابلے بازی کے نتیجے میں بہتر رپورٹنگ و خبروں کی ترسیل اور تبصروں کے معیار کو اعلیٰ ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس متعدد میڈیا ہاؤسز اس طاقت کو دوسرے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی کردار کشی یا نمایاں صحافیوں پر کیچڑ اچھالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ملک کا میڈیا جس میں ٹی وی ٹاک شوز خاص طور سے نمایاں ہیں، کے معیار اور افادیت کے بارے میں ایک عام شہری بھی شدید مایوسی کا شکار ہے۔ سیاسی مباحث پر مبنی ٹاک شوز عام طور سے الزام تراشی کا دنگل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ شوز معلومات میں اضافہ کا سبب بننے کی بجائے اب تفریحی پروگرام کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ہر شخص اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ٹی وی نشریات یا ٹاک شوز کا انتخاب کرتا ہے اور مخالف سیاسی لیڈروں کے بارے میں جھوٹی سچی خبریں اور ہتک آمیز گفتگو سن کر محظوظ ہوتا ہے۔ ٹاک شوز میزبان ان معنوں میں صحافی کی بجائے مداری کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو ایک خاص ایجنڈے یا نقطہ نظر کو سامنے لانے کے لئے کام کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو صحافیوں کا یہ چلن بھی ملک میں آزاد اور باوقار و بامقصد صحافت کے لئے اتنا ہی خطرناک ہے جتنا درپردہ سرکاری ایجنسیوں اور اداروں کی طرف سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈے مہلک ہیں۔ یوں بھی صحافی نظریاتی، کمرشل اور ادارہ جاتی گروہ بندی میں تقسیم ہونے کے علاوہ طبقاتی تقسیم کا نمونہ بھی بن چکے ہیں۔ کوئی بھی صحافی اخلاقی طور سے خبر کی صداقت اور متوازن وغیرمتعصبا نہ رائے سامنے لانے کا پابند ہوتا ہے۔ جب یہ اخلاقی حدود رہنما اصول کے طور پر موجود نہ رہیں تو مفاد کی دوڑ میں ایک صحافی بھی وہی کرے گا جو کسی کمرشل ادارے کا ملازم کرتا ہے۔ ریٹنگ اور مقبولیت کے جعلی معیار کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے اینکر نما صحافیوں کے ایک طبقے نے میڈیا میں کمرشل ازم کو بدترین طریقے سے فروغ دیا ہے۔ ایک طرف اکثر و بیشتر یہ خبریں سننے میں آتی رہتی ہیں کہ کسی صحافی یا کسی میڈیا ہاؤس کے کارکن نے حالات سے مجبور ہو کر خود کشی کرلی ۔ یا یہ کہ اکثر اوقات میڈیا ہاؤسز ۔۔۔جن کے فائیو اسٹار اینکر اپنے پروگراموں میں سماجی انصاف کی دہائی دینے کے علاوہ سیاست دانوں کی بدعنوانی کے ہوش ربا قصے سنا رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ خود اپنے دہاڑی دار اور عام کارکنوں اور صحافیوں کو کئی کئی ماہ تنخواہ دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ اگر کوئی صحافی کام چھوڑ کر جانے کی کوشش کرے تو اس کے واجبات دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔

ٹی وی اینکرز مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے یہ دعوے کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اس نے کس کس سیاست دان یا سرمایہ دار سے زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے لیکن وہ خود اپنے ان ساتھیوں کی مشکلوں کا ذکر کرنا یاد نہیں رکھتے جو رات دن محنت کرکے ان کے پروگراموں کے لئے مواد اکٹھا کرتے ہیں اور خبریں ترتیب دیتے ہیں لیکن اس محنت کا معمولی معاوضہ بھی تاخیر سے اور اقساط میں دیاجاتا ہے۔ ملک کی کوئی عدالت اور صحافیوں کی کوئی تنظیم میڈیا مالکان کو صحافیوں کے لئے مناسب تنخواہوں کے تعین ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور کارکنوں کو ایک خاص مدت کے بعد مستقل بنیادوں پر ملازمت دینے پر مجبور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے صحافیوں کی اکژیت آج بھی چند ہزار روپوں کے عوض کنٹریکٹ پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ ان لوگوں میں صرف نو آموز اور نوجوان طالب علم ہی شامل نہیں ہیں بلکہ کئی کئی دہائی کا صحافتی تجربہ رکھنے والے لوگ بھی انہی شرائط پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صحافیوں کی جو تنظیمیں اپنے ان بھائی بندوں کو بنیادی حقوق دلوانے میں ناکام ہیں ، وہ ملک میں آزادی اظہار کے لئے کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

 اس کا نتیجہ ہے کہ صحافت کی آزادی اور حرف کی حرمت یا تو مٹھی بھر نظریاتی اصول پسند لوگوں کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے یا آزادی اظہار اور صحافت کے فروغ کے لئے قائم این جی اوز کے نمائیندے اس معاملہ پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان مباحث میں عام طور سے وہ جید سینئر صحافی اور اینکر شریک ہوتے ہیں جو نہ تو عام آدمی کی زندگی جیتے ہیں اور نہ وہ خود کو اس معاشرے کا عام فرد سمجھتے ہیں۔ وہ ایک خاص طبقہ بن چکے ہیں جو تفنن طبع کے لئے دوسروں کی آزادی کی بات کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود تو بزعم خویش آزادی جیسا حقیر مطالبہ کرنے سے بالا ہوچکے ہیں۔ ان کا بنیادی کردار مالکان اور ان کے توسط سے اسٹبلشمنٹ اور اداروں کے مفادات کے تحفظ تک محدود ہو چکا ہے۔ جب ان لوگوں کو خود کو ملنے والی مراعات اور عزت و وقار اور عام عامل صحافی کو درپیش مشکلات کے بیچ حائل خلیج دکھائی دے گی اور وہ اسے کم کرنے کے لئے آواز بلند کرتے دکھائی دیں گے تب ہی یہ کہا جاسکے گا کہ اس ملک میں صحافت کو صحت مند خطوط پر استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز ہؤا ہے۔ اس صورت حال میں میڈیا سے ہونے والی شکایات کے خلاف یا تو سرکار کے کنٹرول میں قائم پیمرا سے رجوع کیا جاتا ہے یا عدالتوں تک معاملہ پہنچتا ہے۔

ملک کے چیف جسٹس نے گزشتہ روز عامر لیاقت کے خلاف ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کے علاوہ عوام کے حق انتخاب کے حوالے سے ایک حکم جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے عامر لیاقت کے بعض پروگراموں پر جیو کے ایک اینکر کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے عامر لیاقت کو توہین عدالت کا نوٹس دیا ہے۔ اور یہ ریمارکس بھی دئیے ہیں کہ ایسے لوگ کس طرح پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ عامر لیاقت پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حال ہی میں قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ٹیلی ویژن چینل پر پروگرام بھی کرتے ہیں۔

ان کے خیالات، پروگرام کرنے کے طریقہ اور ذاتی نظریات کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھی جا سکتی ہے۔ اس رائے کو مسترد کرنےکے لئے دلیل دینے اور حقائق سامنے لانے کے متعدد ذرائع ہوسکتے ہیں لیکن اگر حریف ٹی چینل کے پروگرام کو بند کروانے اور ایک مخالف اینکر کو خاموش کرنے کے لئے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ عدالت میں توہین عدالت کی بنیاد پر درخواست دائر کرے گا تو اسے اظہار اور صحافت کی آزادی کے لئے المناک صورت حال قرار دیا جانا چاہئے۔ چیف جسٹس ایک ایسے شخص کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ کیوں کر پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا حق رکھتا جسے 25 جولائی کو لاکھوں لوگوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ سپریم کورٹ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ متعدد دوسرے منتخب نمائیندوں کے خلاف اسی قسم کا اقدام کرچکی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا پاکستان میں بھی ایران کی طرز پر ایسا مقدس ادارہ استوار کیا جارہا ہے جو عوام کے حق رائے کو مسترد کرنے کا حتمی اختیار رکھتا ہے۔

سنسر شپ اور آزادی اظہار کے بارے میں سپریم کورٹ کی غیر واضح حکمت عملی کی صورت حال میں ایک پرجوش سیاسی قیادت ملک میں اقتدار سنبھالنے والی ہے۔ اسے دیگر مسائل کے علاوہ اس معاملہ پر فوری طور سے اپنی رائے اور حکمت عملی واضح کرنا ہوگی۔ اگر عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی خبر کو دبانے اور رائے کا گلا گھونٹنے کا طریقہ جاری رہا تو یہ بطور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی اور شاید سب سے خطرناک ناکامی ہوگی۔ سنسر شپ کے جس ہتھکنڈے کو آج تحریک انصاف مخالف سیاسی قوتوں کو دبانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے کل کو وہ اس پارٹی کے خلاف بھی استعمال ہوگا۔ تب شکوہ و شکایت کا وقت بیت چکا ہوگا۔ اس لئے نئی حکومت کے پہلے چند دن میں میڈیا کی گردن سے اداروں اور عدالتوں کی گرفت نرم کرنا عمران خان کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali