فحش فلموں سے کیوں کر محفوظ رہا جائے


انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دست یاب ہیں۔ اس کے ذریعے لوگ اپنے دور دراز کے عزیزوں سے با آسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس نے بڑ ی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔ ہندوستان میں انٹرنیٹ دس سال قبل متعارف ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریبا 45 فی صد تعلیم یافتہ آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑ ھ جائے گی۔
اس حوالے سے یہ امر از حد تشویش ناک ہے کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کے بیش تر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ محض اندازہ نہیں بلکہ ابھی حال ہی میں انگریزی روزنامہ”ٹائمس آف انڈیا“ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیش تر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹس دیکھنا ہے۔
یہ صورت احوال ہر باشعور کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے۔ باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ محض ہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ ان سائٹس پر با قاعدگی سے جانے والے لوگ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔ یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کو آلودہ کر دیتی ہے۔ اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے؛ یاتو انسان نیک و بد کی ہر تمیز کو فراموش کر کے بے راہ روی کی ہلاکت خیز وادی میں قدم رکھ دیتا ہے، یا پھر شادی کا راستہ کھلنے کے بعد بھی، تا عمر پورنوگرافی کے نشے کا عادی بنا رہتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کے سہل بندھن کو مشکل تر اور خرافات کا مجموعہ بنا رکھا ہے۔ جب کہ دُنیا بھر میں یا تو مناسب عمر میں شادی ہو جاتی ہے، یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑ کے لڑ کیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، جو کہ ان کے معاشرے میں معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ”ٹائمس آف انڈیا“ کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پورے ہندوستانی معاشرے کو یہ پیغام مل گیا ہے، کہ بندھن کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔
ہماری تہذیب جسے ہم ”تہذیب مشرق“ کہتے ہیں اور اس پہ فخر ہے، وہ علامہ اقبال کے اس شعر:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو  شاخ  نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پا ئے دار ہو گا
کے مصداق ثابت ہوگی، اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ جائے گا۔ اس تناظر میں کچھ عرصہ پہلے دہلی کی معروف دانش گاہ جے این یو یا ڈی یو میں، جو حالات پیش آئے اور حیوانیت کا جو ننگا ناچ ناچا گیا، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس پیغام کا پس منظر یہ بھی ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام ہے، ان کے یہاں یہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ ان کے یہاں کی فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے، باقی لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔
انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے۔ سعودی عرب اور سنگا پور جیسے ممالک نے سنسر شپ کے ذریعے سے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ موثر نہیں ہو سکا۔ ہمارے یہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس سےبھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا، بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑ ھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس کا مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی جائے گی۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں، وہ بچوں کی تربیت کو مقدم بنائیں، ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں، بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ کیوں کر بری  ہیں۔ جب بچے بڑ ے ہو جائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔
بچوں کے شادی کی عمرتک پہنچ جانے کے بعد بھی اگرکسی خاندان کے لیے ان کے بچوں کی شادی بہت بڑی مشکل بن گئی ہے تو معاشرے کے دولت مندوں پر اس وقت یہ اخلاقی فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ اس قسم کے ناداروں کی کفالت کریں اور ان کو پاکیزہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سماج میں ایسی برائیاں جنم لیں گی، جن کے خاتمے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکے گی۔
ایسے لوگ جو انفرادی طور پر شادی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت دی ہے:
وَلیَستَعفِفِ الَّذِینَ لاَ یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغنِےَھُمَ اللّٰہُ مِن فَضلِہ۰۰۰۰ الخ ۔سورة النور، الآیة -۳۳
اور وہ لوگ جو نکاح کی مقدرت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ وہ پاک دامنی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے بے نیاز کر دے۔ (سورة النور، آیت -۳۳)
اس پاک دامنی کی تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے:
یَا مَعیشَرَ الشَّبَابِ مَنِ استَطَاعَ مِنکُمُ البَائَ ةَفَلییَتَزَوَّج فَاِنَّہ اَغَضُّ لِلبَصَرِ وَ اَحصَنُ لِلفَرجِ وَمَن لَّم یَستَطِع فَعَلَیہِ بِالصَّومِ فَاِنَّہ لَہ وِجَآ ئ۔ (خرجہ مسلم فی صحیحہ، و النسائی و ابن ماجہ والدارمی فی السنن فی کتاب النکاح )
اے نوجوانو! تم میں سے جس کو گھر بسانے کی قدرت ہو اس کو شادی کر لینا چاہیے، کیوں کہ یہ نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت کا باعث ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا اس کو روزہ رکھنا چاہیے، کیوں کہ روزہ شہوت کو توڑنے والی چیز ہے۔ (صحیح مسلم، سنن نسائی،سنن ابن ماجہ، سنن دارمی کتاب النکاح میں اس حدیث کی تخریج ہے)
قرآن مجید کی یہ ہدایت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام تمام انسانوں کو عام ہے، اہل علم کے سامنے جب اس حکم کی اشاعت کے مواقع آئیں تو ان کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور دونوں مصادر میں جس پاک دامنی کے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اس کی اہمیت اور کیفیت لوگوں کے سامنے حکمت سے بیان کرکے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہیے۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah