گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا


ستمبر 1975 میں مجھے حکومت پنجاب کے محکمہ تعلیم کی جانب سے لاہور سے بہت دور ایک کالج میں بطور لیکچرر تعیناتی کا پروانہ موصول ہوا۔ تگ و دو کرتا رہا کہ لاہور میں تقرری کی صورت نکل آئے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ چار و ناچار پانچ ماہ سے زیادہ کی تاخیر کے بعد فروری کے اواخر میں جا کر نوکری جائن کی۔ اس وقت وہاں فلسفے کی کلاس موجود نہیں تھی۔ ایک مہینہ تک روزانہ کالج جا کر سٹاف روم میں بیٹھ کر گپ شپ کرکے واپس آ جاتا تھا۔ اس کے بعد میں نے اردو کے ایک استاد سے درخواست کی کہ وہ اپنی ایک کلاس مجھے دے دیں تاکہ پڑھانے کا کچھ تجربہ حاصل کیا جائے۔

اس کالج میں اردو کے ایک استاد تھے جن کا نام تو بھول چکا ہوں لیکن ان کے متعدد شگوفے آج تک یاد ہیں۔ ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اردو کی کتاب میں مرزا غالب کی غزل سامنے تھی۔ کتاب میں ایک مصرع جس طرح چھپا ہوا تھا مجھے اس سے مختلف طور پر یاد تھا۔ میں نے ان صاحب سے کہا مجھے یہ مصرع اس طرح یاد ہے۔ فرمانے لگے پھر کیا کیا جائے۔ عرض کیا اوپر لائبریری میں جا کر دیوان غالب نکلوا کر تصدیق کر لیجیے۔ فرمایا لیکن میں دیوان میں غزل کس طرح ڈھونڈوں گا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ حیرت کے مارے پوچھا کیا مطلب۔ کہنے لگے اتنا بڑا دیوان ہو گا، اس میں غزل کس طرح تلاش کروں گا۔

ایک صبح میں کالج پہنچا تو گھبرائے ہوئے میرے پاس تشریف لائے۔ کہنے لگے آج دوسرے استاد چھٹی پر ہیں اور مجھے اردو اختیاری کی کلاس پڑھانے کو کہا گیا ہے۔ آج غالب کا یہ قطعہ پڑھانا ہے: اے تازہ واردان بساط ہوائے دل۔ آپ مجھے اس کا مطلب سمجھا دیجیے۔ اسی طرح ایک دن کلاس سے تشریف لائے تو مجھے کہنے لگے کلاس میں حالی کے شعر کا میں نے یہ مطلب بیان کیا لیکن ایک طالب علم نے کہا نہیں شعرکا یہ مطلب ہے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور بہت آہستگی سے کہا مجھے طالب علم کی بات درست لگتی ہے۔

ایک دن کالج کے تمام اساتذہ کسی تقریب میں موجود تھے۔ سامنے انگور پڑے ہوئے تھے۔ میں نے ایسے ہی شرارتاً کہا کسی کو داغ کا شعر یاد ہے جس ایک مصرع کچھ اس مفہوم کا ہے میں پیتا تھا مے یہ کھاتا تھا مے کی گولیاں۔ کہنے لگے یہ داغ کا شعر ہے۔ عرض کیا مجھے کچھ ایسا ہی یاد پڑتا ہے ، ویسے ہو سکتا ہے کسی اور شاعر کا ہو۔ کہنے لگے یہ تو عزیز میاں قوال گایا کرتا ہے۔ میں نے ہنس کرکہا آپ نے تو وہ بات کی کہ فیض صاحب نے مہدی حسن کی غزلیں اپنے نام سے چھپوا لی ہیں۔ ان دنوں پیکجز نے بلھے شاہ کا کلام بڑے خوبصورت انداز میں شایع کیا تھا جسے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے مرتب کیا تھا۔ اس کتاب کا ذکر چھڑ گیا تو پنجابی کے ایک استاد اندر سے جا کر وہ کتاب لے آئے۔ کتاب دیکھ کر موصوف فرمانے لگے یہ تو بلھے شاہ کا کلام ہے آپ لوگ کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر نذیر صاحب نے کتاب لکھی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گفتگو میں وارث شاہ کا ذکر بھی آ گیا تو ایک بار پھر ان موصوف نے حیرت زدہ ہو کو استفسار کیا کہ کیا بلھے شاہ اور وارث شاہ الگ الگ شاعر تھے۔

 یہ کسی ایک استاد کی بوالعجبی کا قصہ نہیں، مجھے یقین ہے کہ ہر جگہ ایسے نمونے وافر تعداد میں موجود ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات اب بدل چکے ہوں، اگرچہ اس کی توقع بہت کم ہے۔ میں نے چند ماہ ہی اس کالج میں گزارے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی فضا سے نکل کر اس ماحول میں گزارا کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ میں نوکری سے استعفا دے کر لاہور واپس آ گیا۔

 اس کے تین برس بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہاں بھی ایسے بہت سے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے۔ ہم سے کافی سینیر ایک پروفیسر صاحب کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے نزدیک مین لائبریری تشریف لے گئے۔ لائبریری والوں سے کہا کہ وہ ان کا کلیرنس سرٹیفکیٹ بنا دیں۔ لائبریری والوں نے کہا سر ہم ریکارڈ چیک کرکے ایک دو دن میں بنا دیں گے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا آپ نے کون سا ریکارڈ چیک کرنا ہے۔ میں تو کبھی آپ کی لائبریری کا ممبر بنا ہی نہیں اور نہ یہاں سے کبھی کوئی کتاب جاری کروائی۔

جن لوگوں نے ساٹھ کی دہائی سے نوے کی دہائی تک گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی ہے وہ پروفیسر آر اے خان کی شخصیت سے ناواقف نہیں ہو سکتے۔ نوے کی دہائی میں وہ کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ ایک دن میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ مجھے ان کی خصوصی شفقت حاصل رہی ہے۔ دوران گفتگو میں نے خان صاحب سے ایک سوال پوچھا کیا گورنمنٹ کالج کے اساتذہ کا اخلاقی معیار ویسا ہی بلند ہے جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔ خان صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ارشاد فرمایا: برادر یہاں ستر فی صد لوگ ایسے ہیں جنھیں گورنمنٹ کالج میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد انھوں نے جو کچھ کہا اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ کوئی ہمارے زمانے کا نوحہ نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جدید درسگاہوں میں اساتذہ کی بڑی تعداد ایسی رہی ہے اور ہے جو اس کام کے لائق نہیں۔ تعلیم میں بنیادی کردار استاد کا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جب بھی تعلیمی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اس میں استاد کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ ساری گفتگو کا مدار سہولتوں کی فراہمی پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہود بھائی کی بات بہت درست ہے کہ ہماری تعلیم ٹھیکے دار مافیا کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔ سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک جو لوگ تدریس کی زمہ دارایاں نبھا رہے ہیں ان کی اکثریت بے زاری سے یہ کام سر انجام دے رہی ہے چنانچہ ان افراد کار کی موجودگی میں تعلیمی معیار کی بلندی کو خیال است و محال است ہی کہا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جس معاشرے میں علم کو حقیرسمجھا جاتا ہو، دولت اور اختیار کی پرستش کی جاتی ہو وہاں تعلیمی بہتری کا سوچنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).