جب سوویت یونین امریکہ پر ایٹمی حملہ کرنے لگا تھا


امریکی صدر کو ایک گونہ مطلق العنانی حاصل ہے۔ اگر کانگرس کوئی قانون پاس نہ کرے تو صدارتی حکم کے ذریعہ کانگرس کی مدد کے بغیر ہی مرضی کے اقداماتکیے جا سکتے ہیں۔ صدر کو برطرف کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ ریاستہائے متحدہ کا صدر نیوکلئیر بٹن کا مالک ہے۔ کسی ملک پر ایٹمی ہتھیار چلانا ہو تو یہ اختیار صرف صدر کو حاصل ہے کہ وہ نیوکلئیربٹن دبائے اور ساری دنیا میں کہیں بھی بین البراعظمی میزائیلوں، جدید جیٹ بمبار طیاروں اور آبدوزوں کے ذریعہ ایک ہولناک تباہی برپا کر سکتا ہے۔ کانگرس، سیکیورٹی کونسل، فوج، سینیٹ، کوئی بھی اس فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔

صدر ٹرومین کے دور میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملےکیے گئے۔ لیکن اس دور میں صدر کو ان حملوں کا مشورہ فوج نے دیا تھا۔ اور ٹرومین کو ان کے نتائج کا کوئی خاص اندازہ بھی نہیں تھا۔ ان حملوں کی تباہی دیکھ کر امریکی انتظامیہ بھی دہل گئی تھی اور جلد ہی نیوکلیر پروٹوکول کا اجرا کیا گیا اور اس فیصلہ کی مکمل ذمہ داری صدر مملکت کے گلے میں ڈال دی گئی۔

اس وقت سے آج تک صدر کے ہمراہ ایک چاق و چوبند فوجی اہلکار ایک صندوق لئے رہتا ہے جس میں اس نیوکلئیر ہتھیار کی کنجی کسی الیکٹرانک شکل میں موجود ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران ایک موقع آیا جب اس بٹن کو پر صدر کینیڈی کی انگلی چل جاتی۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت کیوبا تعلقات پروان چڑھ رھے تھے اور کاسترو نے روسی میزائل امریکہ کی دہلیز پر نصب کرنے کی حامی بھر لی تھی۔ فریقین نے اس موقع پر عقل کے ناخن لئےاور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

صدر ٹرمپ کے انتخاب کے دوران یہ خدشہ بار بار ظاہر کیا جاتا کہ نیوکلئیر بٹن ان جیسے ناموزوں شخص کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ٹرمپ صدر بن گئے۔ اور نیوکلئیر بٹن اٹھائے وہ فوجی ان کے ساتھ بھی چلتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے صدر ٹرمپ اگر بٹن دبا بھی دیں تو امریکی ہائی کمان میں کئی لوگ ان کی نافرمانی کو تیار ہیں۔

1983 میں سوویت سیٹیلایٹ نے امریکہ سے ایک نیوکلئیر میزائل کی اڑان کی اطلاع دی۔ ماسکو کے دفاعی بنکر میں موجود کرنل پیٹروو  نے اس اطلاع کو تکنیکی خرابی قرار دے کر جوابی کارروائی سے انکار کر دیا۔ روسی اور امریکی پالیسی تو یہ تھی کہ نیوکلئیر حملے کی بھنک پڑتے ہی دوسرے فریق پر بھرپور جوابی کارروائی کر کے اسے تباہ برباد کر دیا جائے۔ پیٹروو نے دیکھا کہ سیٹیلایٹ نے صرف ایک میزائل کی اڑان کی اطلاع دی ہے۔ اس نے سوچا کہ امریکی اگر حملہ کرتے تو سینکڑوں میزائل داغتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سورج کی شعاؤں نے سیٹیلایٹ کے آلات پر اثر کیا تھا جس کی وجہ سے غلط سگنل دیکھا گیا۔ پیٹروو کے بروقت فیصلے نے اربوں جانیں بچا لیں۔

پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیار بھی کہا جاتا ہے کہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ بھارت کی طرف سے حملہ ہو تو معلوم نہیں کہ کتنے منٹوں میں کس کی طرف سے حکم جاری ہوگا۔ اتنا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سویلین حکومت کو اس فیصلے سے کوئی سروکار نہیں۔ سوچا جائے تو بھارتی عزائم پاکستان کے بارہ میں جتنے بھی برے ہوں، وہ نیوکلیائی ہتھیار استعمال کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر امریکہ اور روس کی طرح ان دو ممالک نے بھی مکمل تباھی کی ٹھان رکھی ہے تو اس تباھی میں وسطی ایشیا اور ایران کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

اسی طرح اسرائیل نے بھی اپنے ہتھیار ایک آخری حربے کے طور پر چھوڑ رکھے ہیں۔ اگر اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہوا تو سو فیصد یقینی بات ہے کہ اسرائیلی حکومت اردگرد کے تمام ممالک کو تہس نہس کرنے میں ایک لمحہ بھی توقف نہیں کر ے گی۔

فرانس، برطانیہ، چین بھی نیوکلئیر ہتھیاروں کی کثیر تعداد رکھتے ہیں۔ ان تباہ کن ہتھیاروں کو رکھنے کا خرچ بھی اربوں ڈالر ہوتا ہے۔ اور ان کے استعمال سے بچاؤ کے لئے فوج کی تعداد بھی موثر رکھنی پڑتی ہے تاکہ نزاع کی صورت میں روائیتی جنگ پر اکتفا کیا جائے۔

امریکہ اور سوویت سرد جنگ میں ایٹم بم نہ چلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی دونوں ممالک نے اپنی جنگیں غریب ممالک میں پرائی فوجوں کے ساتھ لڑیں۔ کوریا، ویت نام، افغانستان، پھر ایران اور عراق۔ اور اب شام۔ ان جنگوں کی گردش جاری ہے اور لکھوکھا جانیں ضائع ہو چکیں۔ درجنوں قومیں دربدر ہوئیں۔ کروڑوں لوگ غربت اور بیماری کی نذر ہو گئے۔ اور مغربی دنیا کے احباب حل و عقد مطمئن ہیں کہ ایٹم بم چلائے بغیر کام بن جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).