چیف جسٹس نے انصاف میں تڑکا لگانے کا اعتراف کر لیا


 ادھر ملک کی پندرہویں قومی اسمبلی کے 328 ارکان ملک کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا رہے تھے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار اس بات پر تشویش کا اظہار کررہے تھے کہ دو روز قبل الیکشن کمیشن کے باہر سیاسی جماعتوں کے مظاہرہ میں عدلیہ کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار انصاف فراہم کرنے کے لئے غیر روایتی طریقے اختیار کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ آئین کی شق 184(3) کے تحت حاصل سو موٹو اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عدالتی نظام کے طریقہ کار کو نظر انداز کرکے من پسند معاملات پر مرضی کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔ اس کی بازگشت آج منی لانڈرنگ کے اس مقدمہ میں بھی سنائی دی جو دوسرے لوگوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف قائم کیا گیا ہے۔ اس مقدمہ میں ملوث ایک فریق کے وکیل نے جب عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ کو مناسب کارروائی کے لئے ٹرائل کورٹ کے حوالے کیا جائے تو چیف جسٹس ثاقب نثار کا دو ٹوک جواب تھا کہ ’سپریم کورٹ کو آئین کی شق 184 (3) کے تحت لامحدود اختیارات حاصل ہیں‘۔ اس طرح جسٹس ثاقب نثار  نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ وہ نہ تو اس شق کے بے جا استعمال کے بارے میں اہل قانون کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو خاطر میں لانے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی خود کو ملک کے مسلمہ اور مروجہ عدالتی نظام پر عمل کرنے کا پابند سمجھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ رویہ نو منتخب قومی اسمبلی کے لئے بنیادی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے قانون سازی سے لے کر حکومت کے انتظامی اختیارات میں جس طرح مداخلت کی ہے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آئین کی ایک شق کے تحت ملنے والے اختیار کو جس بے دردی سے استعمال کیا گیا ہے، اس سے اب پورا سول نظام خطرے کی زد پر ہے۔ سپریم کورٹ کے طرز عمل کے علاوہ ججوں کے ریمارکس اور غرور سے بھرے تبصروں سے یہ تاثر سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں ثاقب نثار اور عدالت عظمیٰ میں ان کے چند رفیق ہی دیانت دار اور ملک و قوم کے ہمدرد ہیں۔ اور انہیں کسی سپر مین کی طرح کام کرتے ہوئے قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔ ان میں قانونی معاملات، حکومتی اختیارات اور عدالتی نظام سمیت سب شعبے شامل ہیں۔ بس اب اس ایک بات کی کسر رہ گئی ہے کہ چیف جسٹس کسی روز سوموٹو اختیارکے تحت خارجہ معاملات طے کرنے اور سیکورٹی کے بارے میں ہدایات جاری کرنے کا تہیہ بھی کریں۔ اس کی نوبت شاید اس لئے نہیں آئے گی کیوں کہ ملک کے عسکری ادارے اپنے معاملات میں خود کفیل ہونے کے علاوہ اس قدر خودمختار اور طاقت ور ہیں کہ ان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کے علاوہ ججوں کے بھی پر جلتے ہیں۔

عمران خان عوام کی حمایت سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں۔ گو کہ ان پر اسٹبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کا الزام بھی ہے اور عدالتوں نے بھی انہیں پسندیدہ ہیرو کا درجہ دیا ہؤا ہے۔ ورنہ لاہور کے حلقہ 131، جہاں وہ سعد رفیق سے صرف 608 ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے، میں تمام ووٹوں کی گنتی کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو فوری طور سے تبدیل کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملہ میں اقدام کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر عمران خان کے منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ عمران خان چار مزید حلقوں سے بھی کامیاب ہوچکے تھے اور وہ صرف ایک ہی نشست برقرار رکھ سکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے سعد رفیق کے حق میں ہونے والے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ تک جانا ضروری سمجھا ۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اگر لاہور کی نشست سے ان کی کامیابی مشکوک ہوجاتی اور انہیں اس نشست پر کامیاب قرار نہ دیا جاتا تو پنجاب میں طاقت ور سیاسی لیڈر ہونے کے بارے میں ان کی شہرت داغدار ہوجاتی۔ سپریم کورٹ نے قانون کے تقاضوں اور عمران خان کے اپنے اعلان کے باوجود کہ کسی بھی حلقہ میں اپوزیشن کی تسلی کے لئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے لے کر ہر قسم کا اقدام کیا جائے گا ۔۔۔ یہ طے کیا کہ اس حلقہ میں دوبارہ گنتی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گویا سپریم کورٹ بھی اسی سیاسی رویہ کا مظاہرہ کررہی تھی جس کی وجہ سے عمران خان لاہور کے حلقہ سے کامیابی کا نوٹی فکیشن حاصل کرنے کے لئے بے چین تھے۔

اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کا لاڈلا ہونے کی شہرت رکھنے اور اس قربت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے باوجود عمران خان کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ ان کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اس ملک کے پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ووٹروں نے بھی ان کی حمایت میں رائے دی تھی۔ عمران خان کی حیرت انگیز کامیابی کی ایک وجہ اگر اسٹبلشمنٹ اور عدالتوں کی غیر مشروط حمایت رہی ہے تو دوسری طرف عوام کی بڑی تعداد نے تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعروں کے لئے انہیں اپنے بیش قیمت ووٹوں سے نوازا ہے۔ ملک کے شہری مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت اور طریقہ حکومت سے مطمئن نہیں تھے اس لئے انہوں نے عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو عمران خان کو اس سچائی کو سمجھنا ہو گا کہ عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے انہیں خود فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرنا ہے۔

روایتی طور پر فوج بعض معاملات میں منتخب حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے اور اپنی مرضی کی پالیسی کو نافذ کروانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اسی کے نتیجہ میں مشہور زمانہ ’سول ملٹری اختلاف‘ کی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے۔ تاہم اس سے پہلے کسی حکومت کو عدالتوں کی طرف سے اپنے اختیارات میں براہ راست مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار مقدمات میں فیصلہ کرنے سے لے کر سرکاری اداروں کی اصلاح اور ڈیم بنانے جیسے قومی منصوبوں کے معاملات کو براہ راست اپنی نگرانی میں طے کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں متعدد اقدامات بھی کرچکے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے خلاف یہ احکامات بھلے لگتے ہوں گے تاہم اب زمام حکومت سنبھالتے ہوئے انہیں سوچنا پڑے گا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت ایک طرف فوج کی ضرورتوں کو پورا کرے گی جو حکومت اور پارلیمنٹ کے استحقاق میں اپنا حصہ مانگے گی اور دوسری طرف سپریم کورٹ حکومت کو بتائے گی کہ کون سا معاملہ کیسے طے کرنا ہے تو وہ خود عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کے لئے کیا کریں گے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کے لئے خود بھی یہ نکتہ قابل توجہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ آئین کی ایک شق کے تحت ملنے والے محدود المقصد اختیار کو اس حد تک پھیلا دیں گے کہ وہ حکومتی اختیار اور پارلیمنٹ کے استحقاق کے علاوہ مروجہ عدالتی نظام کو بھی پامال کرنے کا سبب بننے لگیں تو اسے کس طرح قانون کی حکمرانی سے تعبیر کیا جاسکے گا۔ ملک کے وکلا کی متعدد تنظیموں نے چیف جسٹس سے سو موٹو اختیار کے استعمال کی حدود و قیود مقرر کرنے کے لئے فل کورٹ کا اجلاس بلانے اور اس معاملہ پر اختلافات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اصلاح احوال کے جوش میں جسٹس ثاقب نثار اس تجویز پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں اپنی ہی عدالت کے سب ججوں پر پورا بھروسہ نہیں ہے اور یہ اندیشہ ہو کہ فل کورٹ اجلاس کی صورت میں ہو سکتا ہے اس طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ سامنے آئے جو اس وقت ’لامحدود‘ اختیارات کے نشہ میں اختیار کیا گیا ہے۔ لامحدود اور بے روک ٹوک اختیار کبھی اور کسی حالت میں سود مند نہیں ہو سکتا۔ اگر چیف جسٹس پر کسی بھی طرح سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکے گی تو نیک مقصد کے لئے کئے جانے والے اقدمات کے بارے میں بھی شبہات پیدا ہوں گے ۔ اس طرح نہ قانون کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ہی انصاف فراہم ہوسکے گا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج کی سماعت میں آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق نائیک سے یہ شکوہ بھی کیا کہ پیپلز پارٹی کے لوگ عدلیہ کے خلاف نعرے لگانے والوں میں شامل تھے۔ فاروق نائیک نے تو اس معاملہ پر معافی مانگتے ہوئے عدالتوں کے مکمل احترام کا یقین دلوایا لیکن چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کو ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر عدالتیں سیاسی فیصلے کریں گی اور قانونی مباحث میں سیاسی تبصرے سامنے آئیں گے تو عدالتوں کے خلاف رائے بھی منظم ہو گی اور بعض صورتوں میں نعرے بھی لگیں گے۔ سپریم کورٹ توہین عدالت کے الزام میں کس کس کو جیل بھیجے گی۔ آج ہی پاناما جے آئی ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ اس میں فوجی ایجنسیوں کے نمائیندے ’تڑکا ‘ لگانے کے لئے شامل کئے گئے تھے۔ چیف جسٹس کے پاس اس تبصرہ اور اس حوالے سے ہونے والے فیصلہ کا اگر کوئی قانونی جواز نہیں ہے تو انہیں قانون دان سے زیادہ سیاستدان ہی سمجھا جائے گا۔ یہ صورت حا ل آئینی شق 184(3) کی مناسب اور قابل قبول تشریح کے بعد ہی تبدیل ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali