خوجی نے شیر کا شکار کیا


خواجہ بدیع الزماں (میاں خوجی) گویا ہوئے:

بھئی قسم ہے خدا کی، جیسے ہی جنگل میں پہنچا ہوں عجب تماشا دیکھا۔ واللہ باللہ ثم باللہ دیکھتا کیا ہوں، کہ ایک شیر ببر دم پھلاتا درخت کے سائے میں کھڑا ڈکار رہا ہے۔ اور ابا جان کی قسم یہ دیکھیے کہ واللہ مجھ سے اور اس سے کوئی چار ہی پانچ قدم کا فاصلہ ہو گا۔ حضرت میری اٹھتی جوانی اور گینڈا بنا ہوا۔ اور بھئی اللہ گواہ ہے کہ میں اپنی طاقت آزمائی بھی کر چکا تھا۔ ایک دفعہ مکنا ہاتھی کو بڑھ کر طمانچہ مارتا ہوں تو دم دبا کر یہ بھاگا وہ بھاگا۔ میرا زعم بیجا تو تھا ہی نہیں۔

میں نے آو دیکھا نہ تاؤ، بس شیر کو ایک دفعہ ہی ڈپٹ دیا۔ “بھلا بے آگے قدم بڑھایا اور میں نے بھرپور ہاتھ جمایا”۔ تب تو شیر اور بھی غرایا۔ بس اس پر مجھے بھی غصہ آ گیا۔ پھر تو حضرت قسم ہے جناب باری کی بندہء درگاہ بھی جم گئے۔ اور زناٹے سے ہاتھ تول کر ولایتی [تلوار] کا ہاتھ جو چھوڑا، تو شیر  نے تیورا کر منہ موڑا۔

میں نے کہا “او گیدی، نامعقول، تو شیر ہے کہ بھیڑ ہے۔ ” یہ کہہ کر میں جھپٹ پڑا۔ اور جھپٹتے ہی میاں کی دم جو دبائی تو ہاتھ میں تھی۔ پھر بھاگا۔

میں نے غل مچایا “ابے او لنڈورے”۔ واللہ ہے بڑھ کر ایک ہاتھ ولایتی کا دیا، کاسہ سر چیرتی ہوئی پیر کے بر تک پہنچ گئی۔

اتنے میں مجھے خیال آیا ایں، بار خدایا میں مسلح، وہ نہتا، یہ تمغائے شجاعت نہیں۔ معاً خدا گواہ ہے تلوار پھینک کر چمٹ گیا۔ ہاتھوں ہاتھ دستی کھینچی، اور کولے پر لاد کر دھم سے زمین پر دے پٹکا۔ چاروں شانے چت، وہ پچھاڑا۔

تین دفعہ تال ٹھونک، یا علی کہہ کر اٹھا۔ مگر اپنی جان کی قسم، اس وقت داد دینے والا کوئی نہیں ادھر ادھر دیکھا، سناٹا۔ اتنے میں جنگ کے بھورے ریچھ نے آ کر ڈنڈ مل دیے۔

۔

رتن ناتھ سرشار، فسانہ آزاد
Latest posts by رتن ناتھ سرشار، فسانہ آزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).