کراکس: ربڑ کے دیرپا جوتے یا بدصورتی کی اعلیٰ مثال؟


کراکس
سنہ 2008 میں کراکس کی بکری میں ڈرامائی کمی آئی، لیکن اب یہ مارکیٹ میں پھر سے مقبول ہو رہے ہیں۔

کیا آپ کو ’کراکس‘ کے جوتے پسند ہیں؟ یا آپ ان میں سے ہیں جنھیں ان سے نفرت ہے؟ ان پلاسٹک کی چپلوں کے بارے میں لوگوں کی رائے تب سے منقسم ہے جب 15 سال پہلے یہ جوتے پہلی بار مارکیٹ میں آئے تھے۔ انٹرنیٹ پر سینکڑوں بلاگ اور ویب سائٹ ایسی ہیں جو کراکس سے نفرت کرنے والوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کراکس کا سلسلہ 2007 میں شروع ہوا اور اب تک اس کے تقریباً پانچ کروڑ جوڑے فروخت ہو چکے ہیں۔ لیکن 2008 تک خریداروں کے دل بھر چکے تھے اور شدید کساد بازاری کے بعد ان کی فروخت میں واضح کمی آئی۔ ایک سال کے اندر اندر کمپنی 20 کروڑ ڈالر کے منافع سے 20 کروڑ ڈالر کے خسارے میں چلی گئی۔

لال کراکس

تو ایسا کیا ہوا کہ کراکس کی مقبولیت راتوں رات گر گئی؟

کراکس کے سابق سی ای او جان مک مارول کے بقول کمپنی نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے جوتوں کے کئی سٹائل متعارف کروائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’ایک ہی چیز کئی لوگوں نے خرید لی اور ہمارا برانڈ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔‘ کمپنی کو کامیابی کی منزلیں طے کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ لیکن آج کل کراکس کی مارکیٹ میں واپسی کوئی معجزہ نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے جس کی تابیر میں کروڑوں ڈالر لاگت آئی۔

کراکس بنتے کس چیز سے ہیں؟

تقریباً دس سال پہلے تک کئی بڑے نام کراکس پہنتے تھے، جیسے ایل پچینو، میٹ یمن اور کیٹ ونسلیٹ۔ لیکن وہ کیا چیز تھی جن سے کراکس کو اتنی مقبولیت ملی؟ سچ پوچھیں تو جس نے بھی کراکس کے جوتے پہنے انھوں نے انھیں آرام دہ اور منفرد پایا۔

کراکس

کراکس سب سے پہلے ملاح، مالی اور بیروں میں مقبول ہوئے، اور پھر یہ ڈاکٹروں اور ہسپتال میں کام کرنے والوں نے اپنائے۔

مشہور ٹی وی ڈرامے ’گریز انیٹمی‘ میں نظر آنے کے بعد ربڑ کے کلاگ جلد ہی عام عوام میں بھی مشہور ہو گئے۔ یہ ایک خاص قسم کے ’کراس لائٹ‘ ربڑ سے تیار ہوتے ہیں۔ کینیزا میں ایجاد ہونے والی یہ ربڑ کی قسم ہلکی اور دیرپا ہوتی ہے۔

اوپر سے کراکس دیرپا بھی ہوتے ہیں، اسی لیے صارفین کو بار بار خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن زیادہ تر لوگ انھیں آج بھی ’بدشکل‘ اور ’بےڈھنگا‘ ہی سمجھتے ہیں۔ سنہ 2013 میں ’بلیک سٹون‘ نامی انویسٹمنٹ فرم نے کمپنی میں 20 لاکھ ڈالر کا سرمایہ لگایا۔ اگلے مرحلے میں کمپنی کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کرنا تھا، کم بکنے والے جوتے بند کیے اور کئی سٹور بند کرنے پڑے۔ کمپنی نے اپنے سب سے مشہور ڈیزائن پر توجہ دینا شروع کردی، سوراخوں والے ربڑ کے ہوادار چپل۔ کمپنی کو کئی تجربے بھی ترک کرنے پڑے، مثلاً بارش میں پہنے جانے والے اور اونچی ہیل کے جوتے۔ کئی لوگ اب بھی پلاسٹک اور ربڑ کے کراکس کو ’بدصورت‘ سمجھتے ہیں، لیکن یہ سادہ جوتے اب بھی کافی مقبول ہیں۔

کراکس کی واپسی

کنسلٹنگ فرم ’ان مارکیٹ‘ کے مطابق کراکس کی بکری 12 فیصد بڑھ گئی ہے۔

پیلے کراکس

کمپنی کے مارکیٹنگ کے سربراہ ٹیرنس رائلی نے اس ہفتے جریدے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’(پلاسٹک کا) کلاسک کلاگ ہی ہمارا سب سے زیادہ بکنے والا جوتا ہے۔‘

’یہی وہ جوتا تھا جس نے 15 سال پہلے کراکس کا نام بنایا تھا۔ لیکن اب اس کی تشہیر پر تگڑے پیسے لگائے گئے اور اداکارہ ڈریو بیریمور اور پہلوان جان سینا جیسے مشہور سلیبریٹیز کی مدد بھی لی گئی۔‘

فیشن کی دنیا گول ہے

حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ’بدصورت‘ سمجھا جانے والا جوتا لندن فیشن ویک کے دوران کیٹ واک کی زینت بھی بنا۔

کراکس

امریکہ میں پرانی اشیا بیچنے والی کمپنی ’تھریڈ اپ‘ کے مطابق کراکس کا شمار انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے برانڈز میں ہوتا ہے۔ کراکس کی ریسیل 59 فیصد بڑھ گئی ہے، خاص طور پر اس طبقے میں جو مہنگے جوتے نئے خریدنے کے بجائے سستے ’سیکنڈ ہینڈ‘ جوتے خریدنا پسند کرتے ہیں۔ ’تھریڈ اپ‘ کی ترجمان سمانتھا جیکب کے مطابق ’کراکس پہننے کا فیشن واپس آرہا ہے۔‘ ’فیشن کی دنیا گول ہے۔ کچھ پرانے فیشن بھی واپس آجاتے ہیں، بشرطیکہ وہ کلاسک بن جائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp