چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی


باشندگان وطن عزیز کو وطن کا 72 ویں یوم آزادی مبارک ہو، آج سے 72 سال قبل ایک خون آشام آفتاب غروب ہوا تھا، ہمیشہ ہمیش کے لئے، انگریزوں کی نوآبادیات وسامراجیت کا آفتاب غروب ہوا تھا۔ غلامی، محکومی اور جبرو قہر کا آفتاب غروب ہوا تھا اورافتاں و خیزاں آزادی کی شب گزیدہ سحرطلوع ہوئی تھی، سحرخیز، خوابشار مگر خون آلود۔ آزادی کی صبح جہاں ایک طرف خوشیوں کی نوید لے کر آئی وہیں دوسری جانب ہندو مسلم فسادات کا جنون بھی موجزن رہا۔

لاکھوں بےگناہ لوگ قتل ہوئے، عروسان ِنو حیات کے بدن چاک ہوئے، نونہالان ِ خاکدان یتیم ہوئے، گل عذاران چمن داغدار ہوئے، حزن و انبساط کا ایک نامعلوم رنگ فضا میں تحلیل ہوا اور ہرسو پھیل گیا اور وہ صبح ِموعود وعدہ دیگر کے خواب کی کھونٹی پر لٹکی کی لٹکی رہ گئی۔ وہ داغِ نوبہارجو 72 سال قبل ہمارے دامن پرمل دیا گیا تھا آج بھی تازہ ہے، اس داغ کو مٹانے کی کوشش میں 72 سال صرف ہوگئےہیں لیکن اس کارنگ ہرساعت گزران کے ساتھ زیادہ نکھرتا اور پھیلتا جارہا ہے۔ اس 72 سال میں بہت کچھ تبدیلیاں گردش لیل و نہار نے دیکھیں سوائے ایک تبدیلی کے جو خواب تھا، خواب ہے اور شاید خواب ہی رہے گا۔

ان 72 سالوں میں مسلمان یہ ثابت نہیں کرسکے کہ تقسیم کی خونیں لکیر کو مسترد کرنے والے یہ لوگ اگر گوڈسے اور گولوالکر سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ان سے کچھ کم محب وطن نہیں ہیں۔ چرخِ کہن نے دیکھا کہ اس کوشش میں ان کی تین نسلیں رائیگانی کی نذر ہوگئیں ہیں، وہ دلتوں سے بدتر پوزیشن میں آگئے ہیں، لیکن شک و شبہے کے مہیب زعفرانی سائے سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اوراب ایسی کوئی امید افزا کرن بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ خوف و نفرت کی تلوار جو 72 سال قبل سونت لی گئی تھی اب بھی مسلمانوں کے گردنوں پر تنی ہوئی ہے۔ گاؤکشی، موب لنچنگ وغیرہ کی شکل میں نفرت و عدم برداشت کا رقص خونچکاں جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ کوئی آج کا مظہرنہیں ہے، آغاز اسی دن ہوگیا تھا جب گوڈسے نے گاندھی کا قتل کیا تھا۔

13 اگست کو دہلی میں پارلیمنٹ کے بالکل نزدیک کانسٹی ٹیوشن کلب کے دروازے پر جے این یو کے طالب علم عمرخالد پر حملہ اسی عدم برداشت کا نتیجہ ہے جو گوڈسے سے شروع ہوا تھا اور اب ہر جگہ موجود ہے۔ ہم اس واقعے کو مسلم دشمنی کے زاویے سے نہیں بلکہ منحرف یا ’باغی‘ یا انقلابی آوازوں کو دبانے کی زعفرانی کوششوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ یا تو انگریزوں کے دور میں ہی منحرف آوازوں کو توپ کے دہانوں پر رکھ کر دبا دیا جاتا تھا (مولوی باقرکی مثال موجود ہے) یا پھر آج مودی جی کی حکومت میں ایسا ہورہا ہے۔ یعنی کہ آزاد ہونے کے 72 سال بعد بھی ہم اسی ’شیطانی چکر‘ کے مدار میں گھوم رہے ہیں جس کا ہندو مسلم دو قطبی دائرہ کھینچ کر انگریز گئے تھے۔ یعنی کہ 72 سال بعدبھی تمام ترقیوں کے باوجود ہم‘ آزادی ’کے اس دائرےکا سفر کررہے ہیں جو انگریزوں نےغلام ملک کے کچھ ’غلامانہ ذہن‘ کی مدد سے کھینچ کر ہمیں محصور کردیا تھا۔

ہم ہندو مسلم حصار سے کبھی باہر نہیں نکل سکے۔ یقین کیجئے کہ جب جب 15 اگست اور 26 جنوری کے دن آتے ہیں تو مسلمانان ہند احتساب کے عمل سےگزرنے لگتے ہیں کہ ہمیں آخرپس پردہ کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے؟ ہمارا قصورکیا ہے؟ ہمیں محب وطن کیوں نہیں سمجھاجا رہا ہے؟ خیال رہے کہ یہ خیالاتِ پریشاں آئین ہند کے تناظر میں نہیں پیدا ہورہے ہیں کہ آئین میں سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں بلکہ یہ خیالات سماجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر موجود ناہمواری، تعصب اور منافرت کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ تشاویش سماجی تکثیریت اور پرامن بقائے باہم کی فضا کے سکڑنے اور مسموم ہونے کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔

یہ کوئی شکایت نہیں بلکہ ایک حقیقت کا اعتراف ہے کہ سماج کو ’یک رنگ ’بنانے کی کوشش زندگی کے تمام شعبہ جات میں جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے اوراس میں سے سب سے پہلے مسلمانوں اور اس کے بعد دلتوں کا رنگ نکالا جارہا ہے۔ فرقہ پرستی کی یہ بدترین شکل ہے کہ سماج میں موجود تہذیبی و معاشرتی تنوع اوربوقلمونی کو ایک رنگ میں تبدیل کردیا جائے۔ ملک میں ’ہندوتسلط‘ کے نام پر جوکچھ ہورہا ہے اس کا صرف ایک اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔ تصویر کو بڑی کرکےدیکھیں گے تو یہ چہرے اور زیادہ شفاف مگر قبیح و مکروہ نظرآئیں گے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز نے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی۔ صحت، معیشت، تعلیم اور ٹکنالوجی غرض کہ زندگی کے تمام لازمی شعبوں میں قابل ذکر ترقی ہوئی۔ گاؤں کی طرف جانے والی سڑکیں کنکریٹ کی بنادی گئیں گرچہ کاشت کارپہلے ہی کی طرح نکبت زدہ ہی رہا، کھیتوں میں لے جانے والی پگڈنڈیاں جن پر راہ گزاروں کے قدموں کے نشان نقش ہوتے تھے اور جوکسی امید کا استعارہ تھے اب پکی سڑک میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب پگڈنڈیاں نہیں ہیں سو کوئی نقش نہیں، کوئی یاد نہیں اور امید کی کوئی ڈور نہیں۔

ہماری پگڈنڈیوں کا پکی سڑک میں تبدیل ہونا ایک اشاریہ ہے کہ ہم نے ان 72 سالوں میں کس تیزی سے ترقی کی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ ایک خواب کبھی پورا نہیں ہوا جس کو دیکھنے کی خواہش میں ہماری تین نسلیں زیرخاک ہوگئیں۔ 72 سال بعد بھی اب جب کہ دنیا مابعد عہد جدید میں زیست کرنے لگی ہےہم ہندو مسلم کے نام پر، گائے اور چھوا چھات کے نام پرایک دوسرے کا عرصہ ٔ حیات تنگ کیے ہوئے ہیں۔ ان 72 سالوں میں اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ ہے نفرت کا رنگ جو بھگوا کا بھگوا ہی رہا۔ انگریزوں کی قید سے آزاد ہونے کے ساتھ ہم آزاد تو ہوگئے لیکن پھر ایک غیرمرئی خوف کے غلام ہوگئے۔ ہمارا سارا سفر دائروں کا سفر رہا ہے۔ باشندگان وطن کو آزادی اور دائروں کا سفر دونوں مبارک ہو کہ
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai