یوم آزادی کی بازیابی


جی آپ نے صحیح پڑھا میں اپنے ایک پرانے دوست جس کا تخلص یوم آزادی ہے کی تلاش میں ہوں۔ نام تو اس کا پتا نہیں کیا ہے بس لوگوں کے منہ سے ہمیشہ یہ ہی سنا تو موصوف نے بھی اس ہی نام پر اکتفا کرلیا۔ یہ جانے بوجھے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے اور کوئی مطلب ہے بھی کہ نہیں۔ دیکھنے میں کیسا ہے؟ ارے بھئی کیا مطلب کیسا ہے ویسا ہی ہے جیسے سب شریف النفس لوگ ہوتے ہیں۔ پریشان حال، اپنی پیدائش کے مقصد سے بے خبر اور اپنے آپ سے شرمندہ۔ کوئی خاص پہچان؟ جی نہیں بس بہت سہما سہما رہتا تھا انہونی کے خوف میں گھرا ہوا۔ اور ہاں تھوڑا جذباتی بھی تھا۔

دن بھر کی روٹین؟ کچھ خاص تو نہیں تھی۔ جس دن لاپتہ ہوا اس دن بھی باقی تمام دنوں کی طرح گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلا تھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کی وجہ سے گھر سے نکلتے نکلتے دیر ہوگئی تھی تو اس نے شارٹ روٹ لینے کا سوچا۔ ابھی راستے میں ہی تھا کہ آگے سڑک بند ملی اس کو۔ پوچھنے پر پتہ چلا کسی گالم سری نامی گروپ نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور ایک معزز صاحب ان لوگوں میں کڑک کڑک نوٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ بھی خوشی خوشی رقم لینے کے لئے آگے بڑھا کہ 1000 روپے ایک مڈل کلاس آدمی کے لئے بڑی رقم ہوتی ہے ڈیل اچھی لگی ہو تو دو پیزا آجاتے ہیں وہ بھی لارج! اچھا اچھا سوری۔

وہاں خاصی دھکم پیل مچی ہوئی تھی۔ جس کو ہزار مل چکے تھے اس کو دو ہزار چاہیے تھے اور دو ہزار والے کو تین۔ وہ بھی کسی نہ کسی طرح راستہ بناتا آگے بڑھ رہا تھا کہ سامنے سے زوردار دھکا پڑا اور اس سے آگے جانے کی وجہ پوچھی گئی۔ اس نے جب اپنا مقصد بتایا تو سامنے سے ٹکا سا جواب ملا۔
”یہ آفر صرف دین کے لئے جان اور مال ’قربان‘ کرنے والوں کے لئے ہے“
”اور ضمیر؟ “ اس کے اس گستاخ سوال نے سامنے والے کو خاصا مشتعل کردیا تھا۔
”ابے او! تجھے بڑی مشعال خان بننے کی چربی چڑھ رہی ہے، بنا دیں کیا؟ “
”جی، کیا؟ “ اس نے پوچھا۔
”ابے مشعال خان اور کیا، بس 20 عداد افراد لگیں گے اور ایک عدد اعلان!“

یہ سن کر وہ خاصا ڈر گیا اور پیزا پر لعنت بھیج کر واپس لمبے راستے کی طرف پلٹ گیا۔ خاصی کوفت اٹھا کر وہ دفتر پہنچا اس ارادے کے ساتھ کہ اپنے باقی دن کو بامقصد اور بامعنی بنائے گا کہ آج اس کی سالگرہ بھی تھی۔

بہت محنت کر کے اس نے رپورٹ مرتب کی مگر کسی فارم 45 نامی فالتو چیز پر۔ اچھلتا کودتا اپنے مالک کے پاس پہنچا۔ انہوں نے رپورٹ دیکھتے ہی اس کو ایسی خونخوار نظروں سے دیکھا جیسے زندہ ہی نگل لیں گے۔

”ارے تو چاہتا کیا ہے یہ تیسرا مہینہ بھی ہم بغیر تنخواہ کے ہی گزار دیں؟ تنخواہ نہیں تو اس کا آسرا تو رہنے دے۔ گھر کا چولہا جلانا ہے تو اپنے ان تمام سرکش خیالات کو جلا پھینک، آئی سمجھ؟ “

خاموشی سے پھر اس نے ”اس سال 14 اگست پر کراچی میں لوگوں نے کتنے کروڑ روپے کے جھنڈے خریدے“ پر رپورٹ مرتب کرنی شروع کردی کہ اس ہی میں عافیت تھی۔ نوکری کی بھی، پیٹ کی بھی اور جان کی بھی۔

سارے دن کی خواری کے بعد تھکا ہارا وہ گھر واپس جا رہا تھا تو راستے میں ہنستے کھیلتے نظارے دیکھ کر اس کی ساری تھکان دور ہوگئی۔ لوگ ایک ”علیحدہ وطن حاصل کرنے“ کی خوشیاں منا رہے تھے۔ ہر طرف بیف نہاری، بیف حلیم، بیف بریانی، بیف کباب کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں۔ عمارتیں زرق برق روشنیوں سے سجی ہوئی تھیں اور دوپہر والی لوڈشیڈنگ کو کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ پٹاخوں کی آوازیں اتنی حب الوطن اور تہجد گزار تھیں کہ غربت کی سسکیاں اس کے آگے دب چکی تھیں۔ بڑے بڑے برانڈز کے 14 اگست کے حوالے سے ڈیزائن کئیے ہوئے ڈیزائنر کرتوں کی چمک سے کرداروں کا ننگا پن ماند پڑ چکا تھا۔ سب کچھ اتنا دلفریب تھا کہ اس کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں اور ان سے خوشی کے آنسو بہ رہے تھے۔

ڈھائی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد اس نے اپنے اور گھر والوں کے لئے کھانا خریدا اور گھر کو روانہ ہوگیا۔ گھر والے اس کو اور اس سے زیادہ کھانے کو دیکھ کر خوش ہوگئے تھے۔ ٹیبل لگ چکی تھی وہ ابھی بیٹھا اماں کو سارے دن کی رواداد سنا ہی رہا تھا کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونا شروع ہوگئی۔ دروازہ کھولا تو باہر کوئی موجود نہ تھا بس مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اٹھ رہی تھی کہ اچانک پتہ نہیں کہاں سے میرے دوست کے ہاتھوں اور آنکھ پر پٹی بندھ گئی اور وہ کسی غیبی طاقت سے چلتا ہوا باہر گیا اور غائب ہوگیا اور اس دن سے وہ لاپتہ ہے۔ اس کی بازیابی کے لئے گھر والے بہترین سے بہترین پیر اور پیرنی کے پاس گئے مگر اس کی کچھ خبر نہ مل سکی۔ کوئی کہتا ہے خود غائب ہوا کوئی کہتا ہے گرل فرینڈ کا چکر ہے۔ عجب نازک صورتحال ہے جہاں سب کچھ پتا ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں پتا۔ گھر والے تو اب اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکے ہیں مگر۔ کہتے ہیں ”موا اس سے بہتر تھا کسی بم دھماکے میں مر کر ”شہید“ ہی ہوجاتا کم از کم کمپنسیشن کی رقم ہی مل جاتی۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).