جنرل(ر) امجد شعیب، محمد مالک وفادار اور گلگت بلتستان کے سب غدار؟


یوم آزادی پاکستان سے چند روز قبل بلتستان جانے کا اتفاق ہوا۔ دیو سائی کے خستہ حال راستے سے دس گھنٹے طویل سفر کے بعد سکردو پہنچ گئے۔ سکردو بازار کے شور و غل کی پروا کیے بغیر شہر کے ایک وسط میں واقع ایک ہوٹل میں اس امید سے قیام کیا کہ اس تھکا دینے والے  سفر کے بعد سکون کی نیند سو جائیں گے، مگر آنکھ لگتے ہی ہر طرف سے ایک ہی آواز کانوں میں گونجتی رہی ‘جیوے پاکستان ۔۔جیوے پاکستان۔

صبح سویرے شگر کی جانب چل دیے تو راستے میں ہر آ نے جانے والی گاڑی، ہر عمارت، ہر دفتر، ہر گھر اور گلی محلوں میں سبز ہلالی پرچم ہی دکھائی دیے۔ واپسی پر قیام گاہ سے متصل گراونڈ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کے اجتماع پر نظر پڑی۔ استفسار کرنے پر ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہاں چودہ اگست کے جشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک جانب سفید لباس زیب تن کیے خوب صورت جوان ہاتھوں میں موسیقی کے آلات لیے کھڑے تھے، تو دوسری طرف فوجی وردی میں ملبوس سپاہی قومی پرچم کو سلامی دینے کی پریکٹس میں مگن تھے۔ گراونڈ کے اردگرد شہریوں کی خاصی تعداد آزاد فضا میں منعقد ہونے والی ان سرگرمیوں سے خوب محظوظ دکھائی دے رہی تھی۔ ان میں کسی کے ہاتھ میں سبز ہلالی پر چم لہرا رہا تھا تو کسی نے اسے سینے پر سجا رکھا تھا۔ سڑک کے کنارے جشن آزادی کی اشیا سے بھرپور اسٹالز لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اسکولوں اور کالجوں میں جشن آزادی کی تقاریب کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ سرکاری عمارتوں کو بھی قومی پرچموں اور برقی قمقموں سے خوب سجایا گیا تھا۔ ہر طرف جشن کے اس سماں سے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ قائداعظم کا جائے پیدایش ہے۔

واپسی پر دیو سائی کا سر سبز و شاداب میدان بھی قومی پرچم میں رنگا ہوا نظر آیا۔ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے سیاحوں کی گاڑیو ں پر مختلف سائز کے جھنڈے لہر ا رہے تھے اور جگہ جگہ ٹولیوں میں لوگ موسیقی کی تھاپ پر خوب رقص کر رہے تھے۔ شام کو سوشل میڈیا کے توسط سے معلوم ہو ا کہ ضلعی انتظامیہ سکردو کے زیر اہتمام دیو سائی کے بلند و بالا اور وسیع و عریض میدان میں یوم آزادی پاکستان کا خوب جشن منایا گیا، جس میں بلتستان کے نوجوانوں نے اپنے اپنے فنون کا بھرپو ر مظاہرہ کیا۔

آزادی کا یہ جشن صرف بلتستان میں نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں پورے آب و تاب سے منایا گیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان خوشیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ملی یک جہتی کا عملی ثبوت دیا۔ مگر یہ خوشیاں اس وقت ماند پڑ گئیں جب ایک نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں امجد شعیب نامی ایک سابق فوجی جرنیل کی جانب سے گلگت بلتستان بالخصوص بلتی نوجوانوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ اس پروگرام میں امجد شعیب نے ببانگ دہل یہ الزام عائد کیا کہ بیرون ممالک میں مقیم بلتستان کے نوجوان بھارت کے اشارے پر پاکستان میں سی پیک کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں، جن میں سے کچھ لوگوں کو انڈیا لے جا کر دہشت گردی کی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے؛ جو ملک کے لیے ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان سے بھی خطر ناک ہیں۔

اس دوران پروگرام کے میزبان محمد مالک نے امجد شعیب کی جانب سے اس الزام کا ثبوت مانگنے کی بجائے گلگت بلتستان کو آغا خان اسٹیٹ بنانے کی ایک دہائی قبل کے پھیل جانے والی افواہ کو پھر سے دہرا کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔

اگر چہ ان دونوں تجزیہ کاروں کی ان بے تکی باتوں اور قیاس آرائیوں سے گلگت بلتستان کے لوگوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، تاہم اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک خاص طبقہ اغیار کی خوش نودی کی خاطر گلگت بلتستان کو کسی نہ کسی حوالے سے غیر محفوظ قرار دیکر غیر ملکی سرمایہ کاروں خاص طور پر ہم سایہ ملک چین کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے درپے ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے تحت گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہونے کی صورت میں یہ خطہ ترقی و خوش حالی کے ایک نئے دوراہے کی جانب گام زن ہو سکتا ہے۔ جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

ان تجزیہ کاروں کی جانب سے ایک ایسے وقت میں یہ الزامات سامنے آ گئے، جب گلگت بلتستان میں قیام امن کا مسئلہ ایک بار پھر سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے۔ جس کے تحت محض چند دنوں کے دوران ملک دشمن عناصر کی کارروائیوں سے گلگت بلتستان کو خاصی حد تک نقصان اٹھانا پڑا۔ ان عناصر کی جانب سے پہلے ضلع دیامر کے علاقے میں ایک درجن سے زائد اسکولوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ بعد ازاں صوبائی دارالخلافہ سے ملحق علاقے کارگاہ نالے میں پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں تین پولیس اہل کار شہید جب کہ دو زخمی ہوئے۔

اطمینان کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان پولیس کے ان بہادر صفت جوانوں نے بھی کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک مبینہ دہشت گرد کمانڈر اور اس کے ایک ساتھی کو بھی واصل جہنم کر دیا۔ جس سے دشمن کو ایک واضح پیغام تو مل گیا کہ گلگت بلتستان کے پائیدار امن میں مداخلت اس کو بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔

عمومی رائے یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں رونما ہونے والے یہ واقعات ملک دشمنوں قوتوں کی کارروائیاں ہیں جو دیامر بھاشا ڈیم اور سی پیک کا گیٹ وے ہونے کے سبب عالمی سطح پر خطے کی بڑھتی ہوئی اہمیت سے خائف ہیں۔ چناں چہ وہ کسی نہ کسی حوالے سے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہیں۔ مگر یہ سب باتیں اس وقت تک قیاس آرائیاں ہی ہوسکتی ہیں، جب تک کہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ہاتھ نہیں لگ جاتا۔ امجد شعیب نے بھی ایسا کچھ کیا جس کا بغور جائزہ لیا جائے تو محض الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ مزہ تو تب آتا جب وہ اس پروگرام کے توسط سے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کر دیتے کہ گلگت بلتستان کے فلاں فلاں جوان فلاح تاریخ کو بھارت جاکر فلاں شخص سے ملاقات کی یا فلاں جگہ پہ انھیں بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی تربیت فراہم کی گئی۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے ایک حساس ترین ادارے کے ایک اعلیٰ عہدے سے سبک دوش ہونے والا افسر ایک جاہل کی طرح منہ اٹھائے ایک ایسے خطے کی طرف انگلی اٹھاتا ہے جہاں کی داستان ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کے لہو سے رقم ہو چکی ہے۔ جہاں کے باسیوں نے اپنے بے مثال کارناموں کے ذریعے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ شاید امجد شعیب گلگت بلتستان والوں کو غدار قرار دینے میں لالک جان شہید نشان حیدر، ثمینہ بیگ، حسن سدپارہ، نذیر صابر و دیگر کے شان دار کارناموں کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔

مجھے محمد مالک نامی صحافی کی پیشہ ورانہ کم ظرفی پر بھی رونا آتا ہے، جو دنیا بھر میں اپنے کروڑوں مریدوں کے دلوں پر راج کرنے والے پرنس کریم آغا خان جیسی ایک عالم گیر شخصیت کو اپنی ناقص معلومات اور بے تکی افواہوں کی بنیاد پر گلگت بلتستان کے پہاڑوں تک محدود کرنے کے خواہاں ہیں۔ مسئلہ امجد شعیب اور محمدمالک کا نہیں بلکہ اس خاص بیانیے کا ہے جس کے تحت قومی و بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کی منفرد حیثیت کو ٹھیس پہنچانے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ گلگت بلتستان کے چند ایک نمک حرام بھی سازشوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث ہو سکتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر پوری قوم کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔

امجد شعیب اور محمد مالک کے ان الزامات سے گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اپنے اس غصے کا اظہار وہ سوشل میڈیا کے ذریعے انھیں لعن طعن کر کے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا، کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ فرق اس وقت پڑے گا، جب پیمر ا کی جانب سے اس قدر متنازِع پروگرام کی نشریات کا نوٹس لیا جائے گا اور پاک فوج کی جانب سے اپنے سابق افسر سے گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے کے نوجوانوں پر لگائے جانے والے ان الزامات کی وضاحت مع ثبوت طلب کی جائے گی۔ کیا ایسا ممکن ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).