زیب النساء اور دیوان مخفی


زیب النساء اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی 15 فروری 1638 کو دولت آباد میں پیدا ہوئی۔ انتہائی ذہین و فطین، عالمہ، فاضلہ قرآن مجید کی حافظہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور ادبیات سے دلچسپی رکھنے والی ایک صاف گو اور پاکیزہ طبیعت کی مالک دیندار خاتون تھی، فارسی اور عربی ادب میں مہارت حاصل تھی، فارسی کی بہترین اور عمدہ شاعرہ تھی، تاریخ نے جس طرح اورنگزیب کی خدمات کو متنازعہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، بالکل اسی طرح ان کی بیٹی زیب النساء کی علمی ادبی اور تاریخی خدمات کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اورنگزیب کی بیٹی ایک شہزادی تھی لیکن انہوں نے مرتے دم تک فقیرانہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے کلام سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ انہوں نے شاہانہ زندگی کی تمام آسایشوں سے بے پرواہ ہو کر سادہ زندگی کی راہ پر چلنے کو ترجیح دی۔ نمونہ کلام سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

گرچہ من لیلیٰ اساسم دل چوں مجنون دونواست۔
سربہ صحرا می زنم لیکن حیا زنجیر پا است۔
دختر شاہم و لیکن روبہ فقر آوردہ ام۔ ’زیب‘ و ’زینت‘ بس ہمینم نام من زیب النساء است۔

ان کی طرف منسوب کئی کتابوں میں سے ایک ان کا مجموعہ کلام دیوان مخفی بھی ہے۔ تخلص ان کا مخفی تھا اس لیے دیوان کا نام بھی تخلص کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ کئی بار ان کے دیوان ” دیوان مخفی ” سے بھی ان کی نسبت توڑنے کی کوشش کی گئی اور یہ کہا گیا کہ یہ دیوان در اصل زیب النساء کے ایرانی استاد معروف بہ رشتی کے اشعار کا مجموعہ ہے۔

یہاں تک بس نہیں کیا بلکہ ” حیات زیب النساء ” نامی کتاب کی عبارت کے مطابق بعض مکتبہ والوں نے اپنے مطبع سے چھپنے والے دیوان مخفی کے اوپر یہ اشتہار بھی چسپاں کرنا شروع کر دیا کہ ” یہ مجموعہ ایک ایرانی استاد کا ہے عوام اسے زیب النساء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جو کہ غلط ہے ” اس کتاب کے مطابق ان ظالموں نے دیوان مخفی کو کھول کر پڑھا ہی نہیں، ورنہ وہ یہ بات کبھی نہ کرتے۔ کیونکہ اس دیوان کے شروع کے صفحات میں ہی یہ غزل ان مشتہرین کا دعوی جھٹلانے کے لئے کافی ہے۔

دختر شاہم و لیکن روبہ فقر آوردہ ام۔ ’زیب‘ و ’زینت‘ بس ہمینم نام من زیب النساء است۔

زیب النساء نے جس استاد سے اصلاح لی ان کا نام ملا سعید ماژندرانی تھا، شیخ محمد اکرم اپنی کتاب ” رود کوثر ” میں ” شیعہ فرقہ کا فروغ ” عنوان کے تحت اس ایرانی استاد سے متعلق یوں رقمطراز ہے۔
خود اورنگزیب نے اپنی بیٹی زیب النساء کی تعلیم ایک ممتاز شیعہ فاضل ملا محمد سعید اشرف ماژندرانی کے سپرد کر رکھی تھی۔ ملا محمد سعید، ملا محمد تقی مجلسی اصفہانی کے نواسے تھے۔ شیعہ علماء کی مستند تاریخ نجوم السماء میں ان کا اپنا ایک الگ تذکرہ موجود ہے۔ شہزادی زیب النساء کی بارگاہ میں اس ایرانی استاد کو جو خصوصیت حاصل تھی اس کا اظہار اس قصیدے سے ہوتا ہے۔ جو ایران واپس جاتے وقت اس نے شہزادی سے رخصت لینے کے لئے کہا۔

یکبار از وطن نتواں بر گرفت دل
در غربتم اگرچہ فزوں است اعتبار

پیش تو قرب و بعد تفاوت نمی کند
گو خدمت حضور نباشد مرا شعار

نسبت بہ باطن است چہ دلی چہ اصفہان
دل پیش تست تن چہ بہ کابل چہ قندھار

اپنے وطن میں قیام کے بعد یہ استاد واپس ہندوستان آئے لیکن اس وقت اورنگزیب کی وفات ہو چکی تھی۔ لیکن ان کے پوتے نے ان کی بہت ہی قدر کی بالآخر مونگیر میں فوت ہوئے۔ (رود کوثر )
زیب النساء کے اسی ایرانی شیعہ استاد کے متعلق حیات نگار لکھتے ہیں کہ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد عالمگیر نے اپنی بیٹی کے لئے شاہی استاد ملا سعید اشرف عرف رستم غازی کا انتخاب کیا، شروع کے ایام میں فارسی اور عربی علوم اپنے استاد سے حاصل کرنے میں مصروف ہوئی۔ جبکہ شاعری کے لئے ان کی طبیعت خود ہی موزوں بن گئی تھی، جو بات منہ سے نکلتی تھی مقفہ ہو کر نکلتی تھی یہ ماجرا دیکھ کر استاد نے پہلے سے ہی پیش گوئی کر رکھی تھی کہ ایک دن یہ شاعرہ بنے گی، رفتہ رفتہ یہی استاد دیگر علوم کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی اصلاح بھی کرنے لگا، آج شیعہ علماء جب ملا سعید ماژندرانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو بڑی وضاحت اور سعادت مندی سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ملا سعید ماژندرانی اورنگزیب کے دربار کے ایک با عزت اور شاہی استاد تھے۔

طبع موزوں تو ابتداء سے ہی عطیہ خداوندی کے طور پر ودیعت ہوا تھا، دوسرے مرحلے میں ایسے ماہر فن استاد سے اپنی شاعری کی اصلاح کا بھی جسے موقع ملا ہو ان کے دیوان سے انکار کرنا ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ زیب النساء کی ذہانت اور فی البدیہہ اشعار کہنے کے کئی قصے صرف زبانوں تک محدود، جبکہ کئی ایسے واقعات ان کے سوانح حیات کا حصہ بھی بن چکی ہیں۔ چند واقعات کا تذکرہ بر محل معلوم ہوتا ہے۔

ان کی زندگی پر لکھتے والوں میں بیشتر تعداد فارسی والوں کی ہے انہوں نے زیب النساء سے متعلق جن واقعات کو مستند سمجھ کر ذکر کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شب عالمگیر نے دربار میں محفل مشاعرے کا اہتمام فرمایا اور اورنگزیب عالمگیر نے مصرع طرح کا انتخاب خود ہی کرکے چار الفاظ، بیگانہ، چشم، وطن اور دل کو ایک بیت میں جمع کر کے پیش کرنے کو کہا شب شہزادے اور اہل محفل نے کوشش کرکے اپنی بساط کے مطابق یک بیتی شعر طرح مصرع پر پیش کیا اس موقع پر زیب النساء کی طرف سے جو بیت آیا وہ یہ تھا۔

بیگانہ وار میگزری از دیار چشم۔
اے نور دیدہ حب وطن در دل تو نیست،
فارسی مصنف اس واقعے کا ذکر اپنے الفاظ میں یوں کرتا ہے۔

بھ طوری کھ گویند شبی در محفل پدرش شب شعری برپا بودھ و اورنگ زیب چھار کلمھ ی بیگانھ، چشم، وطن، دل را مطرح میسازد و میگوید کھ ہر کس بتواند این چھار کلمھ را در یک بیت جمع نماید، الماسی گرانبھا جایزھ میگیرد۔ تمامی شاھزادگان و شعرا ہر کدام طبع خود را آزمودھ و ابیاتی را میسازند، و زیب النسا ہم این بیت را میسراید۔

بیگانھ وار میگزری از دیار چشم۔
ای نور دیدھ حب وطن در دل تو نیست

ایک مرتبہ مشاعرے کی طرح یوں تھی۔
“اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند“

بڑے بڑے ہم عصر شعراء نے اس طرح پر کلام کہے جن میں مرزا محمد علی، ناصر علی سر ہندی، نعمت خان عالی وغیرہ قابل ذکر تھے۔
اس طرح مصرع پر سوانح والوں نے چند چیدہ چیدہ کلاموں کے ایک ایک یا دو دو اشعار کا انتخاب کیے ہیں۔ تاکہ ایک با ذوق طبیعت کا مالک یہ بھی فیصلہ کرے کہ اس مصرع پر سب سے عمدہ کلام کس کا ہوا ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا مصرع پر زیب النساء نے یوں کہا۔

مریض عشق او بسیار بر بستر نمے ماند۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند۔

مرزا محمد علی نے کہا تھا۔

مہ دو ہفتہ ہر گز با رخ دلبر نمے ماند۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند۔

ببیں بیمار الفت را کہ بستر نمے ماند۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند۔

ناصر علی سر ہندی نے کہا،

زنے قحبہ درون خانہ بے شوہر نمے ماند۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند۔

نعمت علی خان نے کہا۔
ہلال عید چوں ابروئے آں دلبر نمے ماند۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند۔

ان کی محفلیں اس قسم کے ادبی مذاکرے سے بھری رہتی تھیں اس زمانے کے شعراء کے ادبی ذوق کا تو کیا ہی کہنے، اور پھر شاہی خاندان خود بھی ادب دوست اور ادب شناس ہو تو پھر ایسی ادبی محفلیں روز ہی رنگ جمایا کرتی ہیں۔

زیب النساء طبیعت کی حلیم، بردبار، اور عمدہ اخلاق کے مالک تھی، ہمعصروں میں سے بعض لوگ مزاج مخالف ہتھکنڈوں پر بھی اتر آتے تو ان کی بردباری پر کوئی فرق نہ آتا، کبھی کبھار انتہائی بےباکانہ اور گستاخانہ چوٹیں بھی مقابل کی طرف سے سامنے آتیں تو یہ شہزادی صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتی، لوگوں کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے یہ بے نظیر مصرع۔
“از ہم نمے شود ز حلاوت جدا لبم“

تحریر کیا اور دوسرے لوگوں سے اس مصرع پر شعر کہنے کو کہا گیا، سب نے اپنے اپنے انداز میں اشعار پیش کیے، لیکن ناصر علی سر ہندی نے نا مناسب الفاظ کا سہارا لے کرشعر کہ دیا، کتابوں میں ناصر علی سر ہندی کا وہ شعر بھی موجود ہے جسے یہاں ذکر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوا۔ ناصر علی سر ہندی کا شعر گو بہت ہی گستاخانہ اور نا مناسب تھا لیکن شہزادی نے اس شعر کا اپنے اوپر برا اثر لینے کے بجائے بہت ہی متانت کے ساتھ اس شعر کا جواب لکھ بھیجا۔

ناصر علی بنام علی بردئہ پناہ۔
ورنہ بہ ذوالفقارعلی سر برید مست۔

اپنے والد کی تخت نشین ہونے سے پہلے محرم کے جلوس محفل مذاکرے میں انتہائی اخلاص کے ساتھ شرکت کرتی تھی۔ لیکن اورنگزیب کی تخت نشینی کے بعد مکمل گوشہ نشینی اختیار کرلی اور اہل سنت والجماعت کے عقائد سے مستقل طور پر جڑی رہی، آخری وقت تک شادی نہیں کی 1702 میں ان کی وفات ہوئی اور لاہور میں دفن ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).