شفیق الرحمٰن اور کرکٹ


شفیق الرحمٰن اردو کے ممتازمزاح نگار ہیں، تحریر میں شگفتگی کسے کہتے ہیں ، یہ جاننا ہو تو ان کی کتابیں پڑھنی چاہییں۔ مایہ ناز فکشن نگار نیر مسعود نے اپنے والد اور معروف محقق سید مسعود حسن رضوی ادیب کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے موضوع سے باہر کی چیزوں سے اعتنا نہ کرتے ، ایک دفعہ مولوی اختر علی تلہری نے ان سے بہتیرا کہا کہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا کم سے کم ایک شمارہ پڑھ کر دیکھیں، پر وہ نہ مانے۔ اس پر تلہری صاحب نے کہا: ’’آپ اسے پڑھیں گے تو بہت پسند کریں گے۔‘‘ ادیب بولے : ’’مگر اب میں اپنے موضوع سے باہر کی چیزوں کو پسند نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘ ادیب کے تحقیقی جنون کو سامنے رکھیں تو مطالعہ میں ان کی ترجیحات کی سخت گیر پالیسی پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، لیکن مزے کی بات ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی میں جن دو مصنفین کے لیے نرمی لاتے، وہ شفیق الرحمٰن اور پطرس بخاری تھے۔

نیر مسعود کے بقول پطرس اور شفیق الرحمٰن کی تحریریں خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ پطرس کے مرید پور کا پیر کے کئی ٹکڑے ان کو زبانی یاد تھے۔ شفیق الرحمٰن کے بھی کئی فقرے ان کو بہت ہنساتے تھے۔

ممتاز ادیب مشتاق احمد یوسفی بھی شفیق الرحمٰن سے بہت متاثر تھے اور کسی زمانے ان کے رنگ میں لکھنے کے خواہاں بھی رہے لیکن بات بنی نہیں تو انھوں نے وہ رنگ ایجاد کیا جو اپنی مثال آپ بنا۔ نامور فکشن نگار مستنصر حسین تارڑ بھی شفیق الرحمٰن کے عشاق میں سے ہیں۔ وہ ’’ نکلے تری تلاش مبں‘‘ کی کمک پر اردو ادب میں داخل ہوئے ، یہ تخلیق ان کے بقول ، شفیق الرحمٰن کی ’’ برساتی‘‘ سے نکلی ہے۔ یہ سب باتیں تو اصل بات کی گویا تمہید میں بیان ہوگئیں، ہم نے بات تو کرنی ہے شفیق الرحمٰن کے کرکٹ سے شغف کی اور اس کے بارے میں ان کی پر لطف لکھت کی ،جسے پڑھ کر اس کھیل سے ان کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی تحریریں شوق فراواں کے بغیر وجود میں نہیں آتیں۔

شفیق الرحمن – در عہد جوانی

بھوپال یونیورسٹی سے شفیق الرحمٰن پر ڈاکٹریٹ کرنے والی ڈاکٹر ریحانہ پروین نے اپنے مقالے میں شفیق الرحمٰن کی کرکٹ سے دل چسپی کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اردو ادب میں کسی اور لکھنے والے نے اپنے پسندیدہ کھیل کو شفیق الرحمٰن کی طرح اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بنایا۔ ان کے بقول ’’ ہر افسانے میں کرکٹ کا ذکر ایک نئے انداز سے کیا ہے اور موقع و محل کا خاص خیال رکھا ہے اور افسانے کے موضوع کے اعتبار سے کرکٹ کی مختلف کیفیات کو برتا ہے جس سے یکسانیت کا احساس بالکل نہیں ہوتا اور افسانہ زندگی سے قریب تر ہوکر قاری کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کسی نہ کسی بہانے رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں علی گڑھ کا ذکر آہی جاتا ہے، اسی طرح شفیق الرحمٰن کے ہاں بھی کرکٹ کا ذکر آتا ہے۔

شفیق الرحمٰن کا اپنا بیان ہے:

’’ کرکٹ کا بڑا شیدائی ہوں ‘‘

شفیق الرحمٰن جوانی میں فاسٹ باؤلر تھے۔ ان کے دوست اور اردو کے منفرد لکھاری محمد خالد اختر کا کہنا ہے کہ کالج کے دنوں میں انھیں اچھا خاصا فاسٹ باؤلر سمجھا جاتا تھا۔ مستنصر حسین تارڑ کو انھوں نے اپنے گھر کے ٹیرس پر باتیں کرتے ہوئے جو پرانا تصویری البم دکھایا تھا، اس میں ان کی جوانی کی تصویروں میں ایک تصویر کرکٹ کھیلتے شفیق الرحمٰن کی بھی تھی۔

عالمگیر رسالے میں شفیق الرحمٰن کا افسانہ فاسٹ باؤلر شائع ہوا تو اسے پسند کیا گیا۔ ادبی حلقوں میں اس کی دھوم مچ گئی۔ حجاب امتیاز علی نے بھی اس افسانے کی تعریف کی۔ میرزا ادیب نے اپنی خود نوشت ’’ مٹی کا دیا ‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ تحریراس قدر مقبول ہوئی کہ وہ اور ان کے دوست شبلی(عالمگیرکے ایڈیٹر)، مصنف کو اس کے اصل نام کے بجائے فاسٹ باؤلر کہتے۔

ایک دن دونوں دوست شفیق الرحمٰن سے ملنے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں پہنچے۔ وہاں میرزا ادیب نے ان سے کہا کہ ہم تو آپ کو فاسٹ باؤلر کہتے ہیں۔ اس سے وہ محظوظ ہوئے اور کہا : میں فاسٹ باؤلر تو نہیں فاسٹ باؤلر تو میرے افسانے کا ہیرو تھا ۔

شفیق الرحمٰن نے خواتین میں فاسٹ باؤلر کی مقبولیت کا بھی بتایا:

’’ مجھے کسی ثروت کا خط ملاہے۔ لدھیانے سے پورے دو صفحوں کا۔ میرے افسانے فاسٹ باؤلر کی تعریف میں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ افسانہ اتنا پسند کیا جائے گا۔

’’ کسی زہرہ جبیں نے ایک لمبا چوڑا خط لکھا ہے۔کہا ہے میں نے آپ کا یہ افسانہ سات مرتبہ پڑھا ہے اور روتی رہی ہوں۔ ‘‘

sir donald bradman

کرکٹ میں کپتان کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے کپتان سے کھلاڑی کی ان بن ہوجائے تو وہ نہ صرف ٹیم سے باہر کر سکتا ہے بلکہ وہ ٹیم کا حصہ ہو تب بھی اسے خوار کر سکتا ہے۔ فاسٹ باؤلر سے اگر کپتان کا عناد ہو تو ایک تو وہ یہ کرسکتا ہے کہ اسے کم سے کم استعمال کرے ، اور بولنگ دے بھی تو اس وقت جب اچھے بیٹسمین وکٹ پر جم گئے ہوں اور پھینٹی پڑنے کا امکان زیادہ ہو۔ شفیق الرحمٰن کی تحریر ’’ تحفے ‘‘ میں ایک کیریکٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا ہے لیکن وہ کپتان کی توقعات کے برعکس میچ کا رخ بدل دیتا ہے۔

اپنے کھیل سے محبوبہ کا دل موہ لینے کی کوشش کا تماشا تو اب کل عالم دیکھتا ہے۔ عہد حاضر میں انوشکا شرما اس کی روشن مثال ہیں ،سٹیڈیم میں جن کی موجودگی ویرات کوہلی کے لیے تحریک کا کام دیتی رہی ہے۔ امتیاز احمد کے سٹائل میں بیٹنگ سے لڑکیوں کو متاثر کرنے کا ذکر مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’راکھ‘‘ میں بھی ہے۔ شفیق الرحمٰن کا معاملہ اور ہے وہ فاسٹ باؤلنگ سے لڑکیوں کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔

شفیق الرحمٰن نے کرکٹ کے بارے میں مکمل افسانہ بھی لکھا ہے جس کی مثال ’’ فاسٹ باؤلر‘‘ اور’’ ننانوے ناٹ آؤٹ‘‘ ہیں لیکن ایسا بھی ہے کہ ان کی کسی تحریر میں کرکٹ کا خاصا ذکر آ گیا ہے جیسا کہ ’’تحفے‘‘ میں ہے۔اسی طرح افسانے ’’ بے بی‘‘ میں ایک مشہور آسٹریلوی باؤلر کو لاعلمی میں ایک نو آموز باؤلنگ کی باریکیاں بتاتا رہتا ہے اور آخر میں جب اصل حقیقت سامنے آتی ہے تو اس کا خوب مذاق اڑتا ہے۔ اس افسانے میں آسٹریلیا کے عظیم بیٹسمین ڈان بریڈ مین اور ممتاز سپنر بل اوریلی کا ذکر بھی ہے۔ متفرق تحریروں میں بھی کرکٹ کا ذکر راہ پاتا رہا۔ یار عزیز ضمیر جعفری کو یاد کیا توکرکٹ بھی بیچ میں آگئی۔

Wesley Hall

’’ کئی برس ہوئے راولپنڈی میں ویسٹ انڈیز اور مقامی ٹیم کا میچ ہو رہا تھا۔ اس میں فاسٹ،بلکہ بے حد فاسٹ باؤلر ہال کے تابڑ توڑ حملوں کا فی البدیہہ ذکر سٹیڈیم میں بیٹھ کر یوں کیا :

شور اٹھا کہ ہال آتا ہے

کھیل کا انتقال آتا ہے

ہال سے پہلے بال آتا ہے

بال سے پہلے حال آتا ہے

یا تو یہ اشعار ہال نے سن لیے (اور سمجھ لیے) یا ہماری ٹیم نے۔ ضمیر کا اندازہ درست نکلا۔ اگلے ہی ہفتے ہال نے لاہور کے ٹیسٹ میچ میں یکے بعد دیگرے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے نہ صرف ہیٹ ٹرک کیا بلکہ کھیل کا مکمل طور پر انتقال بھی کر دیا۔ ‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2