میرا لیڈر میرا وزیر اعظم


روزمرہ کی مصروفیات کا اثر ہماری تخلیقی صلاحیتوں پر بہت طرح اثرانداز ہوتا ہے اور معاشرے کے اہم ایشوز پہ جب لکھا نہ جاسکے تو سوچ کی دیوی بھی روٹھنے لگتی ہے کہ دیکھ تو سب رہے ہوتے ہیں مگر محسوس کرنا، اس پہ سوچنا اور پھر کرنے کے لئے میدان میں اتر آنا بڑے حوصلے کا کام ہے اور آج ایک شخص کو ٹی وی پر کسی نے واسکٹ اتار کر دی کہ یہ پہن کر تصویر اتروالیں، کھیڑی کی وہی ایک ہی ڈیزائن کی چپل جو ہمیشہ سے ایک جیسی ہوتی ہے، سوچا برانڈ پوچھی جائے پھر سوچا یہ برانڈ تو محض سادگی کا ہی ہوسکتا ہے۔

دنیائے کرکٹ میں نام، پیسہ، عزت کمانے ولا شخص جب بریڈفورڈ یونیورسٹی جاتا ہے تو تنخواہ کی جگہ پاکستان کے لئے ایسی ہی یونیورسٹی مانگ لیتا ہے۔ حیرت ہے ذرا بھی موقع پرستی نام کی چیزنہیں۔ یہ سوچنے والی بات تھی لیڈر بھلا ایسے بنتے ہیں۔ ماں کو کینسر ہوا تو اس نے پورے پاکستان کو بہترین کینسر ہاسپٹل کا تحفہ دے دیا۔ پاکستان پہ برا وقت آیا، چور لٹیرے یہاں کا پیسہ لوٹ کر باہر کے ملکوں میں اپنی جائیدادیں بناتے پکڑے گئے تو یہ ان چوروں ڈاکوؤں کے مقابل اکیلا کھڑا ہوگیا۔ دیوانہ سمجھ نہ سکا کہ سیاست تو مل بانٹ کے کی جاتی ہے بھلا یوں کوئی ہاتھ دھو کے پیچھے پڑتا ہے چوروں کے اور چور بھی اتنے انٹرنیشنل لیول کے۔ پر وہ ڈٹ گیا۔

دھرنا دیا تو خود کنٹینر میں راتیں بسر کیں، کارکنوں کو بھیج کر خود گھر میں اے سی کے نیچے آرام نہیں کیا۔ یہ کیسا لیڈر تھا طالبان کو گولی مارنے کی بجائے مذاکرات کی بات کرتا تھا۔ اتنا امن پسند کوئی سیاسی لیڈر کیسے ہوسکتا ہے نہ دھوپ دیکھتا، نہ بارش، نہ سردی، نہ گرمی۔ لڑتا رہا۔ اور پھر الیکشن کیمپین کے دوران ایک جلسے میں سٹیج گرنے سے جو گر کر زخمی ہوا تو ہر کسی کو رلا کے رکھ دیا اس کے دشمن بھی یقیناً روئے ہوں گے۔ لوگ سیاست پہ صرف بحث کرتے ہیں اپنے آنسو کوئی نہیں بہاتا کسی کے لئے بھی مگر اس کے لئے سب روئے کیونکہ اس کو کوئی پوشیدہ امراض والا ہارٹ اٹیک نہیں ہوا تھا جو اکثر لیڈروں کو لندن پہنچادیتا ہے بلکہ اس کا سٹیج گرا تھا، ٹوٹا تھا اور یہ زخموں سے چور پاکستان کے لوکل ہسپتال میں بے ہوش پڑا تھا۔ ہے نا عجیب بات کہ یہ ہسپتال کوئی لیڈروں کے لئے تھوڑی بنائے گئے ہیں یہ تو صرف پاکستانی عوم کے خرچے بڑھانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔

اور اس کی گورنمنٹ بنی بھی تو کدھر۔ دہشت گردی سے تباہ صوبے میں۔ سنا ہے لوگ بیرون ِملک سے آکر کے اس صوبے میں اپنا کاروبار کھولتے ہیں پیسہ انویسٹ کرتے ہیں۔ ایسے دیوانے رہنماؤں کی پیروی کرنے والے بھی دیوانے ہی ہوسکتے ہیں۔ عقلمند تو سودا کرتے ہیں اور ایک یہ لیڈر بجائے موبائل فون پہ ٹیکس بڑھاکے کمائی کے پلان بناتا اس نے کیا کیا کہ فاٹا میں لوگوں کے فری ہیلتھ کارڈ بنا دیے۔ عجیب صورتحال۔ پاکستان میں موجیں صرف امیروں کی ہیں چھینک آئے باہر جائیں۔ علاج کرائیں۔ اس نے جعلی دوائیوں اور علاج کے لئے مرتے سسکتے غریبوں کے ہاتھ میں مفت علاج کا کارڈ تھما دیا۔

یہ کہتا ہے کہ پاکستانیوں کی بنیادی ضروریات پر توجہ دے گا۔ اچھا تو سرمایہ کاروں کی عیاشیات کا کیا بنے گا اگر نچلا طبقہ خوشحال ہونے لگ جائے گا۔ کہتا ہے پاکستان کسی سے بھیک نہیں مانگے گا اور ہم جیسوں کو رلا کے رکھ دیتا ہے جبکہ ہمارے پرانے نام نہاد لیڈرز تو تعلیم ہی بھیک مانگنے کی لے کر آتے تھے اور لوٹنے کی الگ ڈگریاں۔

یہ آہنی ارادوں والا شخص دیومالائی کہانیوں کے کردار جیسا ایک انتہائی خوبرو شخص بان کی چارپائی پہ پڑا ہوا ہمیں یہ راز بتادیتا ہے کہ انسان کی اوقات ظاہری دکھاوے میں نہیں رکھی بلکہ باطنی خوبیوں میں پروان چڑھ کے سب سے اپنا آپ منواتی ہے۔ اس شخص نے بائیس سال محنت کی اور ثابت کر دیا کہ موقع پرستی، جہالت، لوٹ ماراور کرپشن کے سمندر میں ایمانداری سے کام کرنے والے آہستہ ضرور مگر اپنا آپ منواکے رہتے ہیں۔

عمران خان وہ کردار ہے جو ہمارے دلوں میں بستا ہے یہ جو اس کی مخالفت کرتے ہیں نا ان کو بھی نہیں پتہ کہ مخالفت کر کس چیز کی رہے ہیں کیونکہ وہ تو اقتدار میں آیا ہی پہلی بار ہے تو احتساب اور حساب کس چیز کا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ایسی تقریربھی کسی لیڈر نے نہیں کی کوئی بلند بانگ سیاسی وعدے نہیں تھے بلکہ بنیادی مسائل کے حل کے اقدامات کی طرف نشاندہی تھی وہ تقریر نہیں تھی وہ تو دل کی باتیں تھیں جو وہ سب سے کر گیا کیونکہ اب الحمدللہ اس کے پاس پاور ہے اس خواب کو پورا کرنے کی قوت جو اس قوم کے ہر بچے، نوجوان اور بوڑھے کی آنکھوں میں بستا ہے۔

اکہترسال کی چوری، سینہ زوری کے بعد ہمیں خاندانی سیاست کی بتیاں گل ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ملک کا بال بال کرپشن اور قرضے میں ڈوبا ہوا ہے اب اس ڈولتی ہوئی کشتی کو یہ کپتان ہی سنبھال سکتا تھا جو اکیلا اپنے حق کے لئے لڑنے نکل کھڑا ہوا تھا اور لڑا ڈٹ کے لڑا۔

ایک لیڈر کو کتنا تحمل مزاج اور معاملہ فہم ہونا چاہیے اور خصوصاً ایک لیڈر جس نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہو اس کا دور اندیش اور معاملہ فہم ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک عورت نے بیوی ہوکے جو کیچڑ اس پہ اچھالا، سب کو حیران کر کے رکھ دیا اک لمحے کو تو مجھے بھی خیال آیا کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے کیا خان واقعی ایسا تھا۔ اور جواب ملنے سے پہلے ہی اس کی بائیس سالہ تگ و دو ذہن میں گھوم جاتی۔

مگر آفرین ہے اس شخص پہ جو اس نے اس خاتون کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو، کوئی پریس کانفرنس بلا کے صفائیاں دی ہوں، حالانکہ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی کردار کشی کرنے میں دیر کتنی لگتی ہے پھر چھپاتی پھرتی منہ، خان تو مرد تھا اس کا کیا جاتا۔ مگر خان اپنے کردار کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ابھی ہم اس کے کردار کے اتنے شاندارسحر سے باہر نکل نہیں پائے تھے کہ آج اس نے جو مانگے کی واسکٹ پہنی تو آنسو رواں ہوگئے کہ ہمیں یہ بندہ اتنی دیر سے کیوں ملا ہمیں تو یہ بہت پہلے چاہیے تھا، یہ اتنے عام کپڑوں کے اندر اتنی خاص شخصیت۔ سوچنے والی بات ہے کہ جس ملک میں لوگ سڑکوں پہ آدھے ننگے روٹی کی تلاش میں مارے مارےپھرتے ہیں وہاں کے لیڈرز کی سیاست مہنگے برانڈز کے کپڑوں اور بیش قیمت ضیافتوں پہ چلتی رہی ہے ان گنت دہائیوں سے۔

میں اپنے لیڈر سے یہ توقعات کرتی ہوں کہ وہ اس ملک کے عام آدمی کی توقعات پہ ویسے ہی پورا اترے گا جیسے اقتدار میں آنے سے پہلے پورا اترتا تھا۔ وہ برانڈز کی طرف راغب نہ ہوا تو میں بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لئے آج کے بعد کوئی مہنگا برانڈ استعال نہیں کروں گی نہ ہی اپنے شوہر کو استعمال کرنے دوں گی۔ کیونکہ برانڈ تو اندر ہوتا ہے باہر والا سب پھٹ جاتا ہے بوسیدہ ہوجاتا ہے اس کی واسکٹ والی بات سے میں اس قدر خوش ہوں کہ پاکستان سے نئے کپڑے منگوانے تھے اب وہ ارادہ بھی ترک کر دیا کیونکہ اپنے لیڈر کے نقشِ قدم پہ سب سے پہلے ہمیں خود چلنا ہوگا اس کے ہر سچے ارادے کے ساتھ۔

ہمارے ایک عزیز کینڈین بھائی یاسر اعوان نے اس کی مثال قائم بھی کردی ہے اور وہ کینیڈا سے ہجرت کرکے پاکستان جا بھی چکے ہیں اپنے علاقے کی بہتری، خان کی وفاداری اور پاکستان کی بھلائی کے لئے۔ کینیڈا سے یوں اچانک جانا اتنا آسان نہیں بہت بڑی قربانی ہے۔

اور عمران خان سے پیار کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے لئے ان سے اچھا رہنما فی الوقت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا لیکن جہاں ان سے کوئی کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).