جب ہم اور واجپائی صاحب لاہور گئے


ہم نے یونیورسٹی کی باسکٹ بال ٹیم کو از سر نو بحال کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ کئی دھایئوں کے بعد ہماری یونیورسٹی کو آل پاکستان انٹرورسٹی ٹورنامنٹ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ باسکٹ بال سے میری واقفیت سرسری سی تھی۔ ایک بار کھیل لے میدان سے گزرتے ہوئے نظر پڑی تو چند باہر کے لڑکے کورٹ میں کھیلتے نظر آئے۔ یہ لوکل نوجوان تھے جنہیں ایک انگریز دور کے مشنری سکولوں کے پڑھے ہوئے ایک صاحب کوچنگ کرتے تھے۔ باسکٹ بال ویسے بھی امریکی مشنوں کی باقیات تھا۔ کسی دور میں مقبول ہوتا ہو گا۔

خیر میں بھی اس گروہ میں شامل ہو گیا۔ میری دیکھا دیکھی چند اور یونیورسٹی کے طویل قامت لڑکوں کو ملا کر ایک ٹیم بن گئی۔ دو سال تک شوقیہ کھیلے۔ پھر انٹرورسٹی کا بلاوا آگیا۔ ہم کچے پکے کھلاڑی تھے۔ لیکن لاہور جانے کی لگن میں خوب دوڑیں لگاتے اور روزانہ مشقیں کرتے۔

فروری ١٩٩٩ کے دن تھے۔ ہم ریل کے تھڑد کلاس ڈبے میں سوار لاہور روانہ ہوئے۔ بتایا گیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش ملے گی۔ میچ کسی کالج کے کیمپس پر مقرر تھے۔ لاہور اترے اور رکشے کرا کر پنجاب یونیورسٹی پہنچے۔ شام کا وقت تھا اور پولیس کی گہما گہمی تھی۔ واجپائی صاحب کی آمد کی تیاری میں اسلامی جمعیت طلباء نے اینٹ پتھر مار پروگرام شروع کر رکھا تھا۔ تمام ہاسٹل سیل تھے۔ پھر بتایا گیا کہ فلاں کالج کے ہاسٹل چلے جائیں وہاں کمرے مل جائیں گے۔ رات گئے منزل مقصود پر پہنچے۔ ایک صاحب نے ایک کمرے کا راستہ دکھایا کہ یہاں سو جاو۔ ڈارمیٹری نما کمرے میں دو جوان پہلے لیٹے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ ہاسٹل کے رہائشی ہیں۔ ہمیں بستر، تکیے وغیرہ دے کر وہ ادھر ادھر ہو گئے۔ یہ بھی جمیعت کے کارکن تھے۔ ہر آدھ گھنٹے بعد باہر کے حالات کا جائزہ لیتے ۔ پولیس ریڈ کا خدشہ تھا شائد۔

رات کاٹی۔ واجپائی صاحب کی روانگی کا دن ہو گا۔ اس دن ہمارا ناک آوٹ میچ تھا۔ ہم میدان میں پہنچے۔ مقابل کی ٹیم پر نظر پڑی۔ سب کم از کم تیس پینتیس سال کے خرانٹ نظر آتے تھے۔ ہم نے کوچ صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ یونیورسٹیاں بعض اوقات محکمہ جات کے پروفیشنل کھلاڑی منگوا کر ٹورنامنٹ جیتے کی کوشش کرتی ہیں۔ میچ ہوا۔ مجھے شاید ایک دو پوائنٹ کرنے کی توفیق ہوئی۔ مخالف ٹیم نے دیکھتے دیکھتے ستر پوائنٹ کر ڈالے۔ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ میچ شروع کب ہوا اور ختم کب۔

لاہور کی سرددھند آمیز دوپہر میں ہم نے ہانپتے کانپتے میچ مکمل کیا۔ ادھر واجپائی صاحب دہلی پہنچ رھے تھے اورادھر ہم تھرڈ کلاس ریل کے ڈبے پر بیٹھے یونیورسٹی واپس ہو رہے تھے۔

واجپائی صاحب کو چند ہفتے بعد بتایا گیا کہ پاکستان کے ایک محکمہ کے افسران کشمیر جیتنے کے لئے پروفیشنل جہادی بلا چکے ہیں۔ کارگل کا میچ واجپائی صاحب نے کافی نقصان کے باوجود جیت لیا۔ یہاں نواز شریف صاحب کو معلوم ہی نہیں تھا کہ میچ شروع کب ہوا اور ختم کب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).