ساقی فاروقی کی پاپ بیتی


…میں محفوظ کے اصرار پر چار پانچ ہفتے حیدر آباد ہی میں رہا۔ الیاس عشقی ریڈیو پاکستان کے ریجنل ڈائرکٹر تھے۔ ان کے لیے دس گیت لکھے کہ سفر کی چیزوں کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔ میرے یار غار حمایت علی شاعر اسی اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر اور ریڈیائی ڈراموں کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم دونوں نے رفیق چمن کی فلم “بہن بھائی” کے نغمے لکھے تھے۔ فلم سالی کبھی ریلیز نہیں ہوئی مگر نغمے یا گانے ریکارڈ ہو چکے تھے۔ حمایت نے ریڈیو پر وہی گیت بجوائے جو میں نے لکھے تھے تاکہ مجھے کچھ پیسے مل سکیں۔ یہیں محسن بھوپالی سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی اور غالباً یہیں حمایت نے اور میں نے یک رکنی غزل کا ایک تجربہ کیا تھا یعنی پوری غزل صرف “فاعلاتن” میں لکھی گئی تھی۔ وہ پوری غزل حمایت کی آپ بیتی میں کہیں محفوظ ہے۔ مجھے صرف مطلع یاد ہے :

جو کرم ہے

اک ستم ہے

یہ غزل سبط حسن نے اپنے رسالے “لیل و نہار” میں ہم دونوں کے مشترکہ نام کے ساتھ چھاپی تھی۔ کراچی میں دس روپے کا چیک بھیجتے ہوئے سبطے بھائی نے مجھے لکھا تھا، “پانچ روپے حمایت کو دے دینا اور ہاں یہ تو بتاو ¿ کہ کون سے مصرعے کس کے ہیں ؟ ” میں نے انھیں جواب دیا، “ٹھیک سے یاد نہیں مگر اچھے مصرعے میرے ہیں۔ “

میں نے حمایت کو وہ پانچ روپے آج تک نہیں دیے، خدا کرے وہ مجھ پر ہرجانے کا دعویٰ نہ کریں کہ اب تو وہ پانچ روپے پانچ پونڈ بن چکے ہوں گے۔

انھیں پیسے نہ دینے کا ایک سبب اور بھی ہے جو بعد میں بتاؤں گا۔ محفوظ تو کام کرنے کے لیے صبح ہی صبح اپنے پاسپورٹ آفس چلے جایا کرتے تھے۔ میں نہا دھو کر نچلی منزل میں “نئی قدریں ” کے دفتر میں چلا جاتا اور استاد اختر انصاری کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی ناشتہ کرتا۔ مجھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ابھی تیسرا دن ہو گا کہ ایک نہایت خوب صورت سولہ سترہ سالہ میٹرک کی طالبہ ‘استاد’ کا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کا الٹا ہوا نقاب، پر کترے بال اور کرنجی آنکھیں دل میں آج بھی گڑی ہوئی ہیں۔ خدا کرے کہ اسے کوئی اچھا شوہر مل گیا ہو اور اس خوش بخت نے ان چیزوں کو اسی طرح دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا تھا (کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا…سودا)۔

دوسرے دن وہ لڑکی اپنی دو سہیلیوں کے ہمراہ میرا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ پھر تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر روز ہی ان میں سے کوئی نہ کوئی لڑکی “آٹو گراف” لینے کے لیے پہنچ جاتی۔ خیر، محفوظ کو تو ہر روز ہی میں سب کچھ بتادیتا مگر مجھے کیا خبر تھی کہ ہوٹل والوں نے استاد سے میری شکایت کر رکھی ہے۔ ایک دن ان کے دفتر میں چائے پی رہا تھا تو استاد کہنے لگے، “منیجر کہہ رہا تھا کہ پچھلے دروازے سے کچھ لڑکیاں تمھارے کمرے میں آتی جاتی رہتی ہیں جس سے ہوٹل کی ریپوٹیشن خرا ب ہو رہی ہے۔ ” میں نے محفوظ سے ذکر کیا، وہ خود ہی کسی کرائے کے فلیٹ کی تلاش میں تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم منتقل ہوتے، ایک دن میں اپنے کمرے میں “آٹو گراف” دے رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بے چاری لڑکی نے سراسیمگی کے عالم میں جلدی جلدی اپنی شلوار پہنی۔ میں جیسے تیسے پتلون چڑھائی۔ اس ساری کاروائی میں دو تین منٹ سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے۔ دروازہ کھولا تو اختر انصاری اکبر آبادی اور حمایت علی شاعر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس تازہ گرفتار فاختہ نے نہایت سعادت مندی سے کہا، “حمایت چچا سلام”۔ حمایت نے بھی نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، “خوش رہو بیٹی”۔ ایک دو منٹ کے بعد یہ غنچہ نو شگفتہ اپنے رنگ اوڑھ کے اور اپنی خوشبو چھوڑکے چلا گیا۔ حمایت نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسایوں کی لڑکی تھی اور انھیں کے محلے میں رہتی ہے۔

استاد نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں کنجی والے سوراخ سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ غرض کہ ان دونوں سخن وروں کے باعث میں نے حیدرآباد میں “آٹو گراف” دینے بند کیے اور دو چار دن بعد ہی کراچی لوٹ آیا۔ استاد کا تو کچھ بگاڑنہیں سکا مگر حمایت کے پانچ روپے آج تک نہیں دیے ..

آخر آخر میں یہ کہ میں سلیم احمد کی شخصیت کے ایک ایسے گوشے سے نقاب اٹھا رہا ہوں جس سے اردو والے بالکل یا بڑی حد تک آگاہ نہیں۔ چونکہ اس روداد میں میری اپنی افتاد پوشیدہ ہے، اس لیے جلتے ہوئے انگاروں پر قدم قدم سنبھال سنبھال کے رکھتا ہوا گذروں گا۔ اس لیے بھی کہ چپل اتاردی ہے اور ننگے پاو ¿ں چل رہا ہوں۔

ہوا یوں کہ شمیم احمد، میں اور اطہر نفیس یکے بعد دیگرے ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے (شکریہ میر جی)۔ یہ “زلف” عطیہ بیگم فیضی کی طرح، علم و فراست والے موباف تو نہیں لگاتی تھی مگر ذہانت، جنسی، تشنگی اور لگاوٹ والے بیلے اور چنبیلی کے ہار ضرور پہنتی تھی۔ ہم تینوں انھی ہاروں کے خوشبو سے ہارے۔

دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو (مصحفی)

(مجھے شاعر کا نام یا د نہیں تھا۔ مشفق کو فون کیا۔ اس نے جھٹ سے نام بتایا تو میں نے پٹ سے شکریہ ادا کیا۔ خدا اسے اور شمس الرحمن کو سلامت رکھے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی، کلّی اور استنجا کر کے ان کی درازءعمر کی دعا مانگتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ کمبخت مرمرا گئے تو مجھے شاعروں کے نام، ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کون بتائے گا۔ ان کو اسی طرح کی چوتیا پنتی کے کاموں کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ آہ کہ ان بدمعاشوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاؤں کے سبب اب تک زندہ ہیں۔ )

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5