قومی اسمبلی کا اجلاس اور وزیر اعظم پاکستان


سترہ اگست 2018ء کو عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب پایہ تکمیل کو پہنچا اور 176 ووٹوں کی برتری سے عمران خان وزیر اعظم منتخب کرلئے گئے۔ یوں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا عمران خان کا 22 سالہ سفرسخت جدوجہد کے بعد اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ اور آج باقاعدہ طورپرعمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کاحلف اٹھالیا۔ گزشتہ روز عمران خان ایوان سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اُسی پرانے ترش اور تند و تیز لب ولہجے میں نظر آئے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کا خطاب جارحانہ تھا اور یہی مسلم لیگ (ن) کا مطمع نظر تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نومنتخب وزیر اعظم عمران خان خطاب سے گریز کرتے کیونکہ مسلم لیگ(ن)کے ارکان شوروغل اور عمران خان مخالف نعرے بازی سے محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ایسی صورتحال میں اقتدارکی کرسی پربراجمان ہونے والے لیڈر کو اپنے کسی معتمد کوخطاب کرنے دینا چاہیے تھا اور اس کام کے لیے شاہ محمود قریشی ہی کافی تھے کیونکہ ان کی تقریربھی جارحانہ تھی اور گزشتہ روز اپنی جارحیت دکھانے کا نہیں بلکہ قوم کو یقین دلانے کا موقع تھا کہ جو وعدے کیے گئے ہیں اُن کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔

اس کے برعکس بلاول بھٹو زرداری کا ایوان سے خطاب بہت ہی عمدہ، مدبرانہ اور مصالحتانہ تھا۔ جس طریقے سے انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز کیا وہ بالکل غیرمتوقع تھا۔ باقی لوگوں کی طرح راقم کوبھی یہی گمان تھا کہ بلاول بھٹو کاخطاب بھی شہبازشریف کی طرح انتقامانہ ہوگا۔ انہوں نے عمران خان پرمثبت تنقید کی اور یہی سیاست کاحسن اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے مضبوط کردار کی بنیاد ہے۔ بلاول بھٹو نے کھلے دل سے عمران خان کووزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور یاد دہانی کروائی کہ آپ صرف کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ آپ اُن لوگوں کے بھی وزیر اعظم ہیں جن کو آپ نے گدھے کہہ کر مخاطب کیا اور آپ زندہ لاشوں کے بھی وزیر اعظم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ عمران خان عدم برداشت اور انتہا پسندی کے کلچرکاخاتمہ کریں گے اور ماضی میں کی گئی اپنی نفرت انگیزسیاست سے پرہیزکریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگرعمران خان نے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو اپنا مقصد بنایا تو پیپلزپارٹی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ دریں اثنا انہوں نے پشاورحملے، مستونگ حملے، الیکشن والے دن کوئٹہ میں حملے اور دیگرحملوں کے شہداء کوخراج عقیدت پیش کیا۔ بالکل ایسا ہی خطاب اور لب و لہجہ نومنتخب وزیر اعظم عمران خان کو اختیار کرنا چاہیے لیکن اُن کا کل کاخطاب دھرنے میں کی گئی تقریروں سے مختلف نہیں تھا۔

وہ مسلم لیگ (ن)کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور غصّے میں اپنی اصل تقریر بھول بیٹھے، چنانچہ اپوزیشن نے اپنی اس کامیابی پرخوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ عمران خان قومی اسمبلی میں بھی کنٹینر پرچڑھ گئے۔ اب وقت آگیاہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی کنٹینرپرکی گئی سیاست کو پیچھے چھوڑ کرایک بردباراورتحمل مزاج سیاست دان اور وزیر اعظم کا رول ادا کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن کوقبول کرتے ہوئے اور اپنے100 دن کے لائحہ عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران خان کوایک مثبت کردار ادا کرنا پڑے گا ورنہ ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جائیں گے اور شاید پھر اِن کی حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔

پارلیمنٹ وہ سپریم ادارہ ہے جہاں عمران خان کو اپنی کارکردگی ثابت کرکے دکھانی ہے نہ کہ اپوزیشن کی تضحیک کرنی ہے اور نہ ہی یہ باورکروانا ہے کہ کسی ڈاکو کو این آر او نہیں دیا جا ئے گا اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس لایا جائے گا۔ یہ سب باتیں ایوان میں کہنے کی نہیں بلکہ عملی طور پر کر کے دکھانے کی ہیں۔ عمران خان کو اداروں کو مضبوط اور خودمختار بنانا ہو گا تاکہ وہ خود نہیں بلکہ ان کی کارکردگی بولے۔

سیاست کا میدان کرکٹ کا میدان نہیں جہاں آپ اپنی جارحانہ باؤلنگ سے اگلے کی وکٹیں اڑا دیں بلکہ یہ کھیل صبرآزما ہے اور عمران خان کو بھی صبرکا دامن تھام کر اِس قوم کی مشکلات دورکرنی ہیں۔ عمران خان نے اپنی قوم کو 100دن کالائحہ عمل دیا ہے مگر یہ قوم سمجھتی ہے کہ 100دن میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ 100 دن میں صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منتخب حکومت کی ڈائریکشن کیا ہے۔ 100 دن میں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے یہ قوم آپ کو پورا وقت دیتی ہے کہ آپ اپنی کارکردگی کوبہترسے بہتر بنائیں کیونکہ یہ قوم آپ کو دوسرا موقع نہیں دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).