زنجبار کے بلوچ، باگو مویو کا بازارِ غلاماں اور پاکستان کے شیدی


13 اگست 2018ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی تنزیلہ قمبرانی نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر سندھ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ اس طرح انہیں پاکستان کی تاریخ کی پہلی افریقی النسل رکن پارلیمان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ تنزیلہ قمبرانی کی حلف برداری ہی زیر نظر تحریر کا محرک بنی۔

٭٭٭   ٭٭٭

یہ غالباً جنوری سن بیاسی کی ایک صبح تھی۔ میں تنزانیہ کے دارلخلافہ دارالسلام میں اوشن روڈ پر واقع آغا خان ہسپتال کی ایک او پی ڈی میں بیٹھا مریض دیکھ رہا تھا۔ مجھے دارالسلام پہنچے ابھی مشکل سے دو ہفتے ہوئے تھے، اجنبی ملک، اجنبی لوگ، اجنبی زبان اور رسم و رواج سے آشنا ہونے کی کوششیں جاری تھیں۔ او پی ڈی میں مریضوں کی آمد کے درمیان ایک وقفے کے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں کھڑکی سے نظر آنے والے سمندر کے ایک حسین منظر سے محظوظ ہو رہا تھا۔ بحر ہند کی لہریں ہسپتال کے باہر واقع ناریل کے درختوں سے آراستہ اوشن روڈ کے ساحل سے ٹکرا کر ایک دلکش نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی میری سوچ کی لہریں ہزاروں میل دور کراچی تک پہنچنے کے لئے بے چین تھیں جہاں دو ہفتہ قبل ہی میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں یاروں کو خدا حافظ کہہ کر زندگی کے اس پہلے طویل سفر پر روانہ ہوا تھا۔ میری سوچ کی ان لہروں کو اچانک سسٹر گُولی کے اس اعلان نے منتشر کردیا کہ اگلا مریض مجھے دیکھنے کے لئے حاضر ہے۔

چند ہی لمحوں میں لگ بھگ تیس برس کا ایک جوان کمرے میں داخل ہوا اور مریضوں کے لئے مخصوص کرسی پر آ بیٹھا۔ سانولا رنگ، دراز قد، گھنگریالے بال اور چہرے پر نقاہت کے آثار۔ میں نے مریض کے کارڈ پر نظر ڈالی تو نام کے خانے میں درج مجید بلوچ کے الفاظ دیکھ کر یکلخت خوشی کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ وطن سے ہزاروں میل دور ایک ہم وطن میرے سامنے تھا، میں نے سلام کے بعد ہی مجید بلوچ سے اردو میں ان کی آمد کا سبب پوچھا، مجید نے میرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے حیرانی کے تاثرات کے ساتھ سسٹر گُولی کی جانب دیکھا اور ان سے مقامی زبان میں کچھ کہا۔ سسٹر گُولی ایک عمر رسیدہ اور خوش مزاج اسماعیلی نرس تھیں جو ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ مدد کے ساتھ ساتھ مترجم کے فرائض بھی انجام دیتی تھیں۔ اسپتال کے زیادہ تر ڈاکٹر ہندوستان یا پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ زیادہ تر مریض یا تو گجراتی بولنے والے ایشیائی یا پھر سواحلی بولنے والے افریقی تھے۔ سسٹر گُولی ہر دو قسم کے مریضوں اور ڈاکٹروں کے درمیان مترجم کے فرائض بخوبی انجام دیتی تھیں۔ مجید بلوچ کے مقامی زبان میں کہے ہوئے کچھ جملوں کے بعد سسٹر گُولی ہنستے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئیں ‘ڈاکٹر اس آدمی کو آپ کی بھاشا نہیں آتی، یہ صرف سواحلی بولتا ہے’۔ یہ سن کر اب میرے حیران ہونے کی باری تھی، میں نے غالبا احتجاج آمیز انداز میں سسٹر گُولی سے کہا ‘مگر یہ تو مجید بلوچ ہیں، یقیناً ان کا تعلق پاکستان سے ہوگا، انہیں اردو تھوڑی ہی سہی مگر آتی ضرور ہوگی’۔

زنجبار کے قدیم بلوچ باشندے

سسٹر گُولی نے ایک بار پھر ہنستے ہوئے مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ توڑے اور کہنے لگیں کہ ‘ارے نہیں ڈاکٹر، یہ پاکستان کا آدمی نہیں، یہ تو زنجبار کا رہنے والا ہے، وہاں بہت سے بلوچ رہتے ہیں، وہ صرف اور صرف سواحلی بولتے ہیں، انہیں بلوچی بھی نہیں آتی’۔ سسٹر گُولی کے ان جملوں نے مجھ میں بے انتہا تجسس پیدا کیا، میں اور جاننا چاہتا تھا کہ زنجبار کے یہ بلوچ کون تھے ، کب سے وہاں رہتے تھے، وہاں کیسے آئے اور کیوں آئے، لیکن سسٹر گُولی کے پاس میرے ان سوالات کے جواب نہیں تھے، ‘ڈاکٹر تم کائے کو پریشان ہے؟ یہ سنسار بہت چھوٹا ہے’۔ سسٹر گُولی کے یہ الفاظ میرے تجسس کو دور کرنے کے لئے ناکافی تھے، محدود علم والے میرے دماغ میں بار بار یہ سوال گونج رہا تھا ‘مجید بلوچ کو اردو بھی نہیں آتی، بلوچی بھی نہیں آتی، اور بلوچ بھی ہے، کیسے بھلا؟’ لیکن نہ سسٹر گولی اور نہ ہی میرا محدود علم اس سلسلے میں میری مزید کوئی مدد کر سکے۔ بادل ناخواستہ میں نے بھی ان کلبلاتے ہوئے سوالات کو کسی اور مناسب وقت کے لئے اٹھا رکھا۔

چند ہفتوں کے اندر ہی میں نے دارلسلام میں دوستوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ پیدا کرلیا، یا یوں کہیں کہ میں پہلے سے موجود اس حلقہ کا حصہ بن گیا۔ اس حلقے میں پاکستان سے ہی میرے میڈیکل کالج کے ایک ہم جماعت ڈاکٹر خالد سلیم، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کمار، ڈاکٹر انور ڈھالا اور ڈاکٹر راؤ کے علاوہ کچھ مقامی ایشیائی دوست بھی شامل تھے۔ ان مقامی دوستوں میں سب سے نمایاں صفدر جعفر تھے جو ایک کچھی شیعہ اثنا عشری تھے۔ ان کا خاندان تین نسلوں سے تنزانیہ میں آباد تھا۔ انگریزی، اردو، کچھی اور سواحلی روانی سے بولتے تھے۔ تنزانیہ کے دیگر ایشائیوں کی طرح ان کے والدین نے انہیں ثانوی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لئے ہندوستان بھیج دیا جہاں انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹرز کے بعد برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی سند حاصل کی۔ وہ دارالسلام کے ایک نہایت ہی کامیاب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کی دوستی صرف ہم پردیسی ڈاکٹروں کی بلا غرض اور ہمہ وقت دلجوئی اور خدمت پر مشتمل تھی۔

ایک ویک اینڈ پر صفدر جعفر نے ہم ڈاکٹر دوستوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ وہ ہمیں ساتھ لے کر دارالسلام کے قریب ہی واقع ایک اور ساحلی شہر باگو مویو کی سیر کرائیں گے۔ مقررہ دن پر صفدر ایک بڑی گاڑی میں ہم کئی دوستوں کو لے کر باگو مویو کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں وہ ہمیں باگو مویو کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہ ایک بہت تاریخی مقام ہے، دارلسلام سے پہلے یہ تانگا نیکا کا دارلخلافہ تھا اور اس سے بھی پہلے وہ جزیرۂ زنجبار اور افریقہ کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ایک عرب سلطنت کا بھی اہم حصہ تھا جو بعد میں محدود ہو کر صرف جزیرۂ زنجبار تک محدود ہوگئی۔ جزیرۂ زنجبار گرم مصالحوں کی پیداوار کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ہے اور یہیں سے عرب تاجروں نے گرم مصالحے پوری دنیا میں متعارف کرائے۔ اس عرب سلطنت کا بانی سربراہ اومان کے سلطان کا بھائی تھا اور دونوں سلطنتوں کے درمیان گہرے معاشی اور تجارتی رشتے تھے۔

ہمیں باگو مویو پہنچنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگی کیونکہ یہ دارالسلام سے فقط پچھتر کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اپنے وقت کا یہ بڑا شہر اور تانگا نیکا کا دارلخلافہ اب اپنے تاریخی آثار کی وجہ سے ہی مشہور تھا اور اس کی آبادی محض پندرہ بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ہمیں بہت سے تاریخی مقامات دیکھنے کو ملے جن میں تیرہویں صدی عیسوی کی دومساجد کے آثار، انیسویں صدی میں قائم ہونے والا ایک کیتھولک چرچ اور اسکول اور وہ عمارت بھی شامل تھی جو جرمن ایسٹ افریقہ کمپنی کا صدر دفتر تھی اور جہاں سے جرمنی کی مشرقی افریقہ کی نوآبادی کا انتظام و انصرام سن 1891ء تک چلایا جاتا رہا جب دارالخلافہ دارالسلام منتقل کردیا گیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2