سیکولرازم کے بارے میں کچھ ادھر ادھر کی ….


\"Tanvirچند روز سے مختلف دوستوں کی طرف سے سیکولر ازم کے موضوع پر اظہار خیال کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ یقیناً کسی بھی معاملے پر اگر فتاویٰ اور دھمکیوں کی بجائے علم اوردلیل کی زبان میں بات کی جائے تو یہ انتہائی صحت مند اور حوصلہ افزا رجحان کی علامت ہے۔ سیکولرازم کا عنوان ارض پاک میں اچھاخاصا بدنامی کی علامت بن چکا ہے۔ بدنامی تو خیر زیادہ بڑی بات نہیں، معاملہ سنگینی تب اختیار کرتا ہے جب موضوع بحث ابہام کے دھندلکوں میں گم رہے یا پھر اس کے بارے میں چند تصورات اور مفروضے پہلے سے قائم کرلیے جائیں۔ چنانچہ اس موضوع پر ک±ھل کر بات کرنا اس حوالے سے بھی ضروری ہوچکا تھا۔

معاشرت اورقانون کی زبان میں استعمال کیے جانے والے الفاظ کے معانی کا ٹھیک ٹھیک تعین اور اصطلاحات کی درست ترین تعریف اس عمل کی خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جس پر رائے عامہ بٹی ہوئی ہے اوراس میں ان قوانین کے نفس مضمون سے کہیں زیادہ اصطلاحات کی درست تعریف کے فقدان کا عمل دخل ہے۔ سیکولرازم کے درست معانی کا تعین بھی اس وقت خاصی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہے۔بہتر صورت تو یہی ہوتی کہ سب سے پہلا موقع سیکولرازم کی طرف جھکاو¿ رکھنے والے حلقو¿ں کو دیا جاتا کہ وہ اپنے تصورات کی تعبیر و تشریح خوداپنی زبان سے بیان کرتے۔ دوسری طرف کے احباب کواس تعبیر و تشریح کی روشنی میں اگر ان کی سوچوں اور تصورات پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ انھیں سامنے لاتے لیکن ایسا نہیں ہوا ، لادینیت کی صورت میں ترجمہ تو خیر عشروں سے پھیلایا ہی گیا تھا،سیکولر انتہا پسند اورلبرل فاشسٹ جیسی اصطلاحات بھی گھڑی گئیں جوبجائےخود اپنے اندر تضادات سمیٹے ہوئے ہیں۔ میڈیا ٹرائل کے نتیجے میں اصل موضوع پر بات کرنے کی بجائے صفائیاں پیش کرنے نیز الزامات در الزامات کاسلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کی بیان کردہ تعریف کے مطابق :سیکولرازم اس عقیدے کا نام ہے کہ کسی بھی ملک کی روزمرہ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔اس تعریف کے مطابق مذہب ہر شہری کا ذاتی معاملہ ہے۔ریاست اپنے شہریوں کے عقیدہ رکھنے کے حق کو پورے عزت واحترام کے ساتھ تسلیم کرتی ہےلیکن کسی بھی شہری کوا±س کے مذہب یا عقیدے کی بنیادپر ترجیح دی جائے گی اور نہ ہی ا±س کے ساتھ اِس بنا پر کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جائے۔اس سے کہیں یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ریاست اپنےشہریوں کے مذہب و عقائد رکھنے اور ان پرعمل پیرا ہونے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرے گی۔ درحقیقت اس حوالے سے ریاست کا کردار ایک غیر جانب دار منصف یا سرپرست اور بڑے جیسا ہوتا ہے۔

انفرادی سطح پرسیکولر ہونے کا سادہ ترین معنی یہ ہے کہ اس پر یقین رکھنے والا کوئی بھی فرد ذاتی حیثیت میں کسی بھی مذہب کا پرجوش پیروکار بھی ہوسکتا ہے یا محض سچے دل سے ا±س پر یقین رکھنے مگر عملی میدان میں س±ستی دکھانے والا فرد بھی، وہ اپنے خیالات اور رویوں میں لبرل بھی ہوسکتا ہے یا پھر یکسرلادین(ایتھیسٹ) بھی۔ ریاست کو اپنے شہری کے ذاتی عقائد کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک سیکولر مسلمان ہونے کے ناتے میرے لیے میرے کالی کملی والے ? کی کتاب اور ا±س ? کا ا±سویٰ حسنہ ہی کافی ہے۔مجھے اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے کسی مذہبی پیشوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی اپنے ذاتی معاملات میں اچھا (یا ب±را)اور باعمل(یا بے عمل) مسلمان ہونے کے باوجود کبھی بھی ،کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق دوں گاکہ وہ میرے مسلمان ہونے (یا ناہونے) کا فیصلہ کرتےپھریں کیونکہ یہ معاملہ میرے اور میرےخالق کے درمیان ہے اور اس میں کسی بھی صورت کسی کو دخل اندازی کا حق حاصل نہیں۔مجھے اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہونا ہے۔خ±دائی فوج دار پہلے اپنے اپنے جنت کے پروانے مجھے لا کر دکھا دیں پھر میں بھی ا±ن کے پیچھے چلنے کے بارے میں سوچوں گا۔

سیکولر ازم کوریاستی سطح پر دیکھا جائے تو ہر فرد کو ریاست کا شہری ہونے کی حیثیت میں (اس کے عقائد اور خیالات سے قطع نظر) یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ریاست عقائد کی بنیاد پراپنےشہریوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھے گی۔ ریاست کا کوئی (پسندیدہ یا ناپسندیدہ) عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس بات کا ایک لازم نتیجہ یہ بھی ہے کہ بذات خود ریاست محض عقیدے کی بنا پراپنے بچوں(شہریوں) میں تفریق شروع کردے گی۔

عقل سلیم یہ تقاضا کرتی ہے کہ اجتماعی معاملات کے سلسلے میں جو بھی نظریہ یا سوچ پیش کی جائے ا±س پر اجتماعی نقد و نظر کی اجازت بھی ہونا چاہیے نیز اس کی تشریح و تعبیر پر کسی بھی اجارہ دار یا مراعات یافتہ طبقے کو فوقیت حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اب جہاں تک اجتماعی معاملات میں مذہب کے(اور اس سے ان کے تعین کا حق کس کو حاصل ہوگا، کس کی تشریح کو راجح مانا جائے گا اور کس کی تعبیرات نظر انداز کردی جائیں گی یا پھر ماضی کی طرح سب کے درمیان اصل فیصلہ شمشیر ہی کرے گی؟

اس ملک میں پائی جانے والی عدم رواداری کی اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ مخصوص افراد و طبقات نے افراد نے خود کو خلق خدا کے عقائد کی تشریح اور ا±ن کی زندگیوں(اور موت) کے بارے میں فیصلے صادر فرمانے کے منصب پر فائز کررکھا ہے اوران میں سے اکثریت کوسچائی، راست بازی، ایمان داری،حسن خلق ، تواضع،تقویٰ اور ایمان و احتساب جیسی نبوی ? خصوصیات سے دور دور تک کوئی علاقہ نہیں۔ بنیادی انسانی اخلاقیات سےیکسر بے بہرہ یہ افراد محض ایک مخصوص ظاہری وضع قطع اور عبادات جیسے یکسر ذاتی معاملے کی تشہیر ہی کو اپنی فضیلت کی بنیاد سمجھے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ 69برس ہونے کو آئے، مذہب کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں دخیل ہونے کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔

”اپنا عقیدہ نہ چھوڑو، کسی کا عقیدہ نہ چھیڑو“ سیکولرازم کا بہترین نمونہ ہے اور برصغیرمیں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ابولکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین ، ڈاکٹر (جسٹس)جاوید اقبال، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹرنذیر احمد(پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور) جیسے افراد سیکولر ازم کی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔جیو اور جینے دو کا حق تسلیم کرنا سیکولر ازم کی بنیاد ہے۔اگر آپ کے نزدیک یہ سیکولر ازم نہیں اسلام ہے تو سو بسم اللہ۔تیری آواز مکے اور مدینے۔ جان کی امان پاو¿ں تو یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں کہ فرقہ زہاد میں کتنے لوگ اسلام کی اس تعریف سے متفق ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments