عثمان بزدار، ایک اسسٹنٹ کمشنر کی نظر سے


عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ کیا نامزد ہوئے، پنجاب کی دھرتی کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے والی سیاسی اشرافیہ، مافیاز کا غول، صحافت کے بھانڈ، سٹیٹس کو کے موقع پرست، پنجاب کو مردار سمجھ کر اس کے بدن سے اپنے اپنے حصے کا ماس بھنبھوڑنے والے گدھ سب مل کر نشانہ باندھے کنکر پہ کنکر اچھال رہے ہیں۔ کیا اپنے کیا پرائے عثمان بزدارسب کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ بڑے بڑے جغادری دانشور، سیاست کے کنگ میکر، بلیک میلزر سب حیران ہیں کہ بادشاہی کا ہما ان کے سر کو نظر انداز کر کے ایک مڈل کلاس کے ایسے شخص پہ کیسے مہربان ہو سکتا ہے جس کی بستی میں بجلی نہیں، جس کا گھر پنجاب کے اس کونے میں ہے کہ جہاں کا مجبور بلوچ لاہور کی روشنیاں دیکھنے آئے تو گھر کا راستہ بھول جائے۔

ان کی تکلیف کا مداوا کیونکر ممکن ہے کہ جن کو یہ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ پنجاب کی پگ کا وارث کسی چوہدری، کسی میاں اور کسی ملک کی بجائے کوئی ایسا بلوچ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے بنیادی حقوق تک کو پائمال کر کے اس کے پہاڑوں سے نکلے قیمتی پتھر اشرافیہ کے ڈرائنگ روم کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ بس سوگ کی کیفیت ہے اور ماتم برپا ہے۔

2011 میں اس خاکسار کی تعیناتی تونسہ شریف میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی تو سردار عثمان خان بزدار سے بھی نشستیں ہوئیں کہ جو صرف نام کے سردار ہیں۔ ان کے والد سردار فتح محمد بزدار کہ جن کی شرافت کی ایک دنیا گواہ ہے۔ میرے دفتر میں آتے تو نہ ہٹو بچو کا شور، نہ لوگوں کا جم غفیر نہ ہوٹر والی گاڑیاں۔ ایک چِٹ پر لکھے عوام کے چھوٹے چھوٹے کام۔ منکسر المزاج سردار صاحب کو بتایا جاتا کہ کون سے کام ہونے والے ہیں اور کون سے کام ہونے میں کون سا قانونی سقم ہے۔ مان لیجیے کہ بڑے سردار صاحب نہ تو کبھی ناراض ہوئے اور نہ ہی کبھی اپنی بات پہ بے جا اصرار کیا۔

عثمان بزدار کا لہجہ بھی وہی دھیما اور متانت سے بھرپور ہے۔ یہاں تو ایک کونسلر جامے میں نہیں سماتا اور کہاں ایک تمندار سردار اور ایم پی اے کا نوجوان بیٹا۔ تونسہ شہر کے مشہور کالج روڈ سے تجاوزات ہٹا کر کشادہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت کے سردار اور مقامی ایم پی اے کا گھر دوسرے تیسرے نمبر پر موجود تھا۔ میں نے عثمان خان کو فون کیا تو بولے ”پہلے میرا گھر گرائیے، نہیں گرائیں گے تو آپ کو اور کون ہاتھ لگانے دے گا“ اور یوں عوامی سہولت کا یہ کام شروع ہو سکا۔ آپ لاہور کے کسی کن ٹٹے پہلوان کی طرف سے بند کی ہوئی کوئی عوامی گلی کھول کر دکھائیے۔

ایک دفعہ میں نے عثمان خان کو کال کر کے ان کے ایک بھائی کی شکایت کی۔ کہنے لگے ” کوئی غیر قانونی حرکت کرے تو میری طرف سے اسے گرفتار کروا دیں“۔
لیجیے صاحب، آپ گوجرانوالہ کے کسی ایم پی اے کے ڈرائیور کے قانون شکن بھائی کو گرفتار کرنے کی ہمت کر دیکھیں۔

میڈیائی بچے جمہوروں کی آہیں آسمانوں پر ہیں اور تعصب کا کرب ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ جھوٹ کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں پر کہانی ہے کہ بننے میں نہیں آرہی۔ فرسودہ سسٹم کے علمبرداروں کو خبر ہو کہ آپ چاہے عثمان بزدار کے کھاتے میں ہابیل کا قتل ڈال دیں پر تونسہ کی پسماندہ ترین تحصیل کا یہ مڈل کلاس نمائندہ، فرسودہ سسٹم کی آخری سسکی اور حقیقی تبدیلی کا استعارہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).