خود کش حملوں کی مختصر تاریخ


شمعون فلسطائن میں آخری قاضی تھا، جسے بے پناہ طاقتوں سے نوازا گیا تھا، وہ شیر کا شکار کر سکتا تھا اور کسی بھی طاقتور جانور کو ہاتھوں سے چیر دیتا تھا۔ اس قصے کا ذکر بائبل کے نسخہ قدیم میں ملتا ہے۔ فلسطائنی (یہ اس زمانے کی ایک قوم تھی) ایک دربار میں اکٹھے ہوئے اور اج شمعون (جو اپنی طاقت کھو چکا تھا) کو قربان کرنے کا دن تھا تا کہ وہ اپنے دیوتا کو خوش کر سکتے۔ لکھا ہے کہ جس قلعے میں اسے قید کیا گیا تھا وہاں کئی ہزار لوگ موجود تھے۔ شمعون اپنے خدا سے کھوئی ہوئی طاقت واپس پانے کے لیے دعا کرتا ہے، اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور جیسے ہی اسے قربانی کے لیے لایا جاتا ہے وہ قلعے کے ستون گرا دیتا ہے۔ جس سے شمعون سمیت قلعے میں موجود تمام لوگ مر جاتے ہیں۔ شاید یہ تاریخ کا پہلا ”خود کش“ ہے جس کا ذکر ایک مقدس مذہبی کتاب میں افسانوی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہودیوں کے سیکاری فرقے کے یونانی یہودیوں (جن پراصل یہودی تعلیمات سے انحراف کا الزام تھا) کے خلاف ”خودکش“ حملے بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔ اگر انسانوں کو انسانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے، جس میں ان کے جان جانے کے صد فیصد امکانات ہوں، کو خود کش سمجھا جائے تو قدیم یونان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں تک کہ ارسطو بھی غلاموں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا نظر آئے گا۔ مگر تیر و تلوار کی جنگوں کے دورمیں ”خودکش“ کی تمیز کرنا بہرحال ایک مشکل امر ہے۔ لہٰذا خود کش حملوں کی تاریخ بارود کی دریافت اور اس کے استعمال سے شروع ہوتی ہے۔

اس بات پر متفق ہونا بھی مشکل ہے کہ پہلا بارودی خودکش واقعہ کب، کہاں اور کس مقصد کے تحت ہوا۔ تاہم گن پاؤڈر کے دریافت کے بعد خود کش حملوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اورایسے واقعات چین، روس، امریکہ اور عرب وہند میں کثرت سے رونما ہوئے۔ گن پاوڈر کو برقت استعمال کرنے میں کافی دقت ہوتی تھی اور ایسے حملے زیادہ نقصان نا پہنچا سکتے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں ڈائنامایٹ کا استعمال عام ہوا۔ ڈائنامایٹ کا پہلا حملہ روس میں ہوا۔ جس میں ایک منسٹر بشمول خود کش حملہ آور کے ہلاک ہو گیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں چین نے جاپان کے خلاف اپنی فوج میں باقاعدہ طور پر ایک ”خودکش سکواڈ“ تیار کیا۔ جس کا مقصد جاپانی فوجوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچانا تھا۔ اسی صدی میں چین میں چنگ خاندان کے خلاف ایک بغاوت ہوئی۔ باغیوں کی اس تحریک میں خود حملے کرنے والوں کو ”ڈئیر تو ڈائی“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بہتر شہداء ہوانگواگانگ کے نام سے ایک یادگار چائنہ میں ابھی بھی موجود ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں جاپانی کامیکازی ہواباز خودکش حملوں کے لیے مشہور ہیں۔ کامیکازیوں کے 3000 سے زائد خود کش حملے کیے اور اتحادیوں کے درجنوں جہاز سمندر برد کر ڈالے۔ اگرچہ جاپان کو ان مہمات کا کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا، لیکن جنگ کے اختتام تک ہمت ہارتے جاپان میں خودکش جنگی مہمات ایک رواج کی حد تک عام ہو چکی تھیں۔ دوسری طرف جرمنی میں بھی خودکش جنگی مہمات دیکھنے کو ملیں۔ جنگ میں انسانی جان کے جانے کا امکان تو ہوتا ہی ہے، لیکن جب اس منصوبے یا غرض سے کوئی جنگی معرکہ سرانجام دیا جائے کہ اس میں حملہ آور اپنی جان کو یقینی طور پر گنوانے کے لیے تیار ہو، تو ایسے حملوں کو خودکش حملہ ہی شمار کیا جاتا ہے۔ جنگی مہمات میں مزید ایسے واقعات شمالی اور جنوبی کوریا، اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین 1965 کی جنگ مین بھی ملتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین خود کش حملوں کی لہر لبنان، فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں سے شروع ہوئی۔ زیادہ تر خود کش حملے کئی کئی ٹن بارود سے بھڑی گاڑیوں سے کیے گئے۔ 80 کی دہائی کے بعد چیچنیا کی ”بلیک ویڈوز“ کے خود کش حملے بہت مشہور ہیں۔ یہ خود کش حملے وہ بیوہ عورتیں کرتیں تھیں جن کے خاوند چیچنیا کی آزادی کی جنگ میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اسی عرصے میں سری لنکا مین تامل ٹائگرز کی گوریلا تحریک نے زور پکڑا۔ اس تحریک میں خودکش حملوں کرنے والوں کو بلیک ٹایئگرز کہا جاتا تھا۔ جو باقاعدہ خط لکھ کر تحریک میں شامل ہوتے۔ سری لنکا میں بلیک ٹائیگرز کے پہلے خودکش حملے میں 55 فوجی مارے گئے تھے۔

خود کش حملوں کی جدید اور موجودہ تاریخ القاعدہ کے نام سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ القاعدہ کا تانا بانا سرزمین عرب پر امریکی اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے والی تنظیمات سے ملتا ہے، اور یہ تنظیمیں نفاذ شریعت کے نام پرعرب سمیت افریقہ، روس اور ہندوستان میں خود کش حملے کرتی رہیں تاہم خود کش حملوں کا یہ سلسلہ 11/9 کے بعد تیزی سے شروع ہوا اور بہت کم وقت میں تقریباً پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان اور افغانستان شدید طور پرخود کش حملوں کی زد میں ہیں جہاں عموماً عام شہریوں کا نشانا بنایا جاتا ہے۔

خودکش حملوں کے محرکات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہے۔ ایک خود کش کو ذاتی اغراض و مقاصد کے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ریاست اپنے مقاصد کے بھی استعمال کر سکتی ہے اور کسی تحریک کے سیاسی یا مذہبی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم تاریخ سے ایک سبق سیکھنے کو ملتا ہے، ہر وہ نظریہ جو انسانی جان کو ”قربان“ کرنے/ہونے کے لیے تیار ہونے پر اکسائے، اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے، چاہے وہ حب الوطنی کے نام پر ہو، رنگ، نسل، زبان یا پھر مذہب کے نام پر۔ ممکن ہے کہ ایسے نظریات پل بڑھ کر پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).