“پاکستان کا مطلب کیا” شہاب ، رمضان اور “صاحب لوگ”


جیسے ہونا نہ ہونے کی دلیل ہے ویسے ہی سوال کا جواب بین السوال ہی ہوتا ہے۔ اور کسی متن کے بیانیے کا رد اسی کے اندر پنہاں ہوتا ہے یعنی لکھنے والا اپنی ہی لکھاوٹ میں خود کے بیانیے کا رد پیش کر دیتا ہے۔ مگر یہ واضح نہیں بلکہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا ادراک لکھنے والے کے شعور میں نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہی آپ کو قدرت اللہ شہاب کی مشہور تصنیف ان کی خود نوشت ” شہاب نامہ“ کے مضمون ”پاکستان کا مطلب کیا“ میں نظر آئے گا۔

اس مضمون میں شہاب صاحب جس بیانیے کو بڑھاوا دے رہے ہیں ایک صفحے کی مختصر مسافت میں اسی کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے مضمون میں ماقبل تقسیم ہند کے سیاسی اور سماجی حالات کو زیر قلم لاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تقسیم ہند کے دو فریق تھے۔ ہندو اور مسلمان۔ جبکہ تیسرا یعنی انگریز ہندو کا معاون تھا۔ مزید برآں ان دو فریقین کی جنگ یا تضاد کا سبب ہندو کا انتہا پسندانہ طرز فکر تھا۔ جس کو چند ایک واقعات سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر یہ وضاحت اتنی مبہم ہے کہ قاری کے ذہن میں کچھ سوالات اٹھاتی ہے جن کو جاننے کی جستجو اسے ایک دوسری حقیقت کی طرف لے جاتی ہے

اپنے مضمون میں موصوف صفحہ 177 پہ لکھتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب لیبر پارٹی بسر اقتدار آئی تو چونکہ مہاتما گاندھی کے اس سے مراسم اچھے تھے اس لیے انہوں نے یہ رٹ لگا دی کہ انگریز کے بعد ہندوستان کی وارث کانگرس ہے۔ اسی تناظر میں آگے چل کر کابینہ مشن پہ لکھتے ہیں کہ جب مارچ 1946 میں ”کابینہ مشن پلان“ ہندوستان آیا تو اس میں لارڈ پیتھک، سر سٹیفورڈ کریس، اور مسٹر اے وی الیگزینڈر شامل تھے ان ارکان کی کانگرسی قیادت سے میلان اور وابستگی کو کچھ یہوں لکھتے ہیں

”رجحان طبع اور میلان خاطر کے لحاظ سے لارڈ پیتھک گاندھی جی کی مہاتمائی کے اسیر تھے۔ وہ گاندھی جی کو مشرقی دانائی اور روحانیت کا منبع سمجھتےتھے۔ آپس میں گرو اور چیلے کا تعلق تھا“
کابینہ مشن کی کہانی کے دوسرے کردار کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں ”مشن کا سب سے زیادہ تیز، طرار اور فعال ممبر سر سٹیفورڈ کرپس تھے۔ پنڈت نہرو کے ان کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ مشن کی بیشتر اہم تجاویز پنڈت نہرو اور گاندھی جی کے خفیہ مشورے کے بعد مرتب کی جاتیں تھیں ” اسی طرح تیسرا کردار بھی کانگرس کے ” مردآہن“ ولبھ بھائی پٹیل کو مسیحا سمجھتا تھا۔

درجہ بالا اکتساب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کابینہ مشن کے ممبر گانگرسی قیادت کے کس قدر گہرے دوست تھے حتی کی چیلے تھے اور فیصلہ جات گاندھی اور نہرو کے خفیہ فیصلے کی بغیر نہیں کرتے تھے۔ لیکن یہ بات اگلے ہی صفحہ پہ اپنے ہونے کا رد پیش کرتی ہے۔ جب کابینہ مشن کا فیصلہ کانگرس کے لئے قابل اعتراض جبکہ مسلم لیگ کے لئے قابل قبول ٹھرتا ہے۔

انگریز ہندو دوستی اور مسلم مخالفت کی روایت ہمارے ہاں عام ملنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ اس طرح کی تاریخ اور ادب ہے۔ جس طرح درجہ بالا اکتساب میں دیکھا جا سکتا بلکل ویسے ہی مضمون میں ماؤنٹ بیٹن کو کانگرس کا حامی بتایا گیا ہے۔ لیکن اسی تحریر میں جب وہی ماونٹ بیٹن سرحد کے معاملے کو لے کر ریفرنڈم نہ کروانے پر زور دیتا ہے تو ان کا دوست ماؤنٹ بیٹن ایسا کرنے سے انکار کر دیتا۔ اس کے برعکس ماؤنٹ بیٹن سے قبل لارڈ ویول بغیر کانگرسی رائے کے اپنے تئیں مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ پیشہ ور وائسرائے بن جاتا ہے۔ لیکن وہ مسلم لیگ کا دوست کیوں نہیں کہلاتا؟

مضمون کے متن کی تہہ میں موجود سچائی کو جاننے کے لئے یہ مفروضہ مفید ہو سکتا ہے کہ ”انسان اپنے لا شعور سے پہچانا جاتا ہے“۔ مضمون میں شہاب صاحب اپنی شعوری جنگ اس محاظ پر لڑ رہے ہیں جہاں ہندو مسلمان آمنے سامنے ہیں۔ مگر اس شعوری جنگ میں وہ اپنے لاشعور سے ہار جاتے ہیں۔ جب صفحہ 190 پر رمضان کے ریڈیو میں 3 جون 1947 کو ماؤنٹ بیٹن، نہرو، بلدیو سنگھ اور قائد اعظم کی تقاریر سسنے کے بعد کےتاثرات لکھتے ہوئے شہاب صاحب کہتے ہیں

”تقریریں ختم ہوئیں تو رمضان نے بڑی سادگی سے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایسے بڑے بڑے انگریز، ہندو اور سکھ ”صاحب لوگ“ مل جل کر مسلمانوں کے لئے پاکستان بنا رہے ہیں“
شہاب صاحب کے کشمیری خانساماں کے یہ الفاظ بلا کا طنز رکھتے ہیں۔ مگر مجھے حیرت ہے شہاب صاحب کی بے حسی پر جن کو ان الفاظ میں پوشیدہ طنز محسوس ہی نہیں ہوئی۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ ہوم ڈپارٹمنٹ کے ایک ڈپٹی سیکٹری (صاحب لوگ) کو ایک سادہ لوح خانساماں کی بات کی گہرائی کا خیال نہ رہا ہو۔ میرے کان میں مضمون کا متن سرگوشی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ رمضان شہاب سے دانشوری میں سبقت لے گیا ہے (بعد کی چند سطور میں شہاب نے اپنے لیے دانشور کا لفظ استعمال کیا ہے) کیونکہ شہاب کے 20 صفحات پر مشتمل بیانیے کو رمضان نے ڈیڑھ سطر میں رد کر دیا اور وہ بھی شہاب کے قلم سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).