سرِ منبر وہ خوابوں کے محل


اگلے وقتوں کی بات ہے۔ گاؤں میں انتہا کی پسماندگی تھی۔ کھانا کسی کسی تو ملتا وہ بھی اک پہر، دو پہر۔ نہ کوئی سکول مدرسہ نہ مکتب پاٹ شالا۔ تیز تھا سر ہر خار۔ ڈاکٹر حکیم دوا دارو بھی مفقود۔ ہر جگہ بھوک ننگ افلاس کا راج تھا۔ ہر روش خاک اڑاتی تھی صبا۔ مال مویشی بد حال پیاسے۔ مال ڈھور ڈنگر سے بھی بدتر آدم زاد۔ اوّل تو پانی کوسوں دور۔ کہیں کہیں برساتی تالاب۔ وہ پانی بھی ایسا کہ دیکھ کر جی متلائے ابکائی آئے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی مرد وزن ڈھور ڈنگر اس تالاب سے پانی پینے پہ مجبور۔ گاؤں کیا تھا قبل مسیح کی یاد۔ معتدی امراض وباؤں کے سبب اموات معمول تھا۔ عبرت سرائے دہر۔

یہ تو سارے گاؤں گوٹھ کی بات تھی لیکن ان غربا کی جھونپڑیوں کے بیچوں بیچ و ڈیرے کا محل تھا۔ محل میں رات کو بھی دن کا سماں رہتا۔ جہاں ہر دن عید اور ہر شب، شب برات ہوتی۔ جیسے جشن نوروز۔ جہاں اشارہ آبرو پہ اخوان و من سلویٰ اترتا۔ کہیں برکتوں کی ہیں بارشیں کہیں تشنگی بے حساب ہے۔ گاؤں کی پسماندگی کا ذمہ دار گاؤں کا وڈیرا اور اس کے جانشین تھے۔ عشروں سے گاؤں ان کا محکوم چلا آرہا تھا۔ کئی نسلوں نے غلامی میں آنکھ کھولی اور غلامی میں ہی آنکھیں موند لیں۔ وقت ضرور بدلا لیکن اک چیز جو نہ بدلی وہ حاکم اور محکوم طبقہ۔ اگر آپ کو لگتا ہے یہ سب حال حالات اندرون سندھ اور تھر کے ہیں جہاں بھٹو خاندان نسلوں سے حاکم چلا آرہا ہے تو آپ کی مرضی ہے۔

لیکن چھوڑیں جی دنیا کی باتوں میں کیا رکھا۔ مت چھیڑو دنیا کی بات سجن کہیں بیت نہ جائے رات سجن۔ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں۔ پوری قوم کو مبارکباد بلاول بھٹو زرداری نے کمال کردیا۔ کیا غضب کی تقریرہے۔ بلا کی روانی۔ ایسا لگا جیسے اسلام آباد میں دریائے سندھ بہنے لگا۔ انگریزی میں الفاظ کا وہ چناؤ کہ شیکشپیئر تک عش عش کر اٹھے۔ لہجہ کا زیر اتار چڑھاؤ زیرو بم ایسا کے اک جہاں حیرت زدہ انگشت بدنداں۔ چرند پرند تک دم سادھے سماعت پذیر۔ میلہ لوٹ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کی یاد تازہ کردی۔ پدرم سلطان بود۔ اس کی شخصیت سے ہی اعتماد جھلکتا ہے۔ پھول شاخوں پہ کھلنے لگے۔ جام رندوں کو ملنے لگے۔

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے۔ عشروں سے سندھ میں بلاول بھٹو زرداری کے خاندان کی حکومت ہے۔ لیاری پیپلز پارٹی کا محفوظ ترین حلقہ ہے۔ یہی وہ حلقہ ہے جہاں کھمبے کو بھی بھٹو کے نام پہ ووٹ پڑتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا جو امیدوار کہیں سے نہیں جیتتا اس کو لیاری سے منتخب کروایا جاتا ہے۔ زرداری صاحب بھی براستہ لیاری سیاست میں وارد ہوئے تھے۔ لیاری کی عوام بلاول کے خاندان سے اتنی خوش تھی کہ جب ان کا قافلہ وہاں ووٹ مانگنے گیا تو آگے سے جوتیاں پڑنی شروع ہوگئیں۔ بھاگتے ہی بنی۔ پھر میڈیا میں شور مچایا کہ یہ دو گروہوں کی لڑائی تھی۔ جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو ثابت ہوا واقعی یہ دو گروہوں کی ہی لڑائی تھی۔ اک امراء کا گروہ جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کررہا تھا۔ دوسرا جوتا بردار عوامی گروہ۔

جب بلاول پارلیمنٹ میں تقریر کررہا تھا کم و بیش اسی وقت ان کی ابا یعنی زرداری صاحب اور ان کے دست راست انور مجید اور چالیس ارب کی خرد برد کی باتیں ہورہی تھیں۔ بلاول کی ساری قابلیت یہ ہے کہ وہ محترمہ بینظیر کا بیٹا یعنی بھٹو کا نواسہ ہے۔ بلاول نے تقریر کی وہی گھسا پٹا بیانیہ دھاندلی ہوئی۔ کیسی دھاندلی ہے جس میں پیلزپارٹی کی سیٹ کم ہونے کی بجائے بڑھ گئیں ہیں۔ کیسی دھاندلی ہے جس میں سندھ حکومت پہ گرفت اور مضبوط ہوگئی ہے۔ بلاول نے تقریر کا آغاز دھاندلی کے رونے دھونے سے کیا لیکن جو دھاندلی عوام کے ساتھ شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، انور مجید، ایان علی اور اس قماش کے لوگوں کے نام پہ کی گئی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

سندھ جو عشروں سے اس خانوادے کا پایہ تخت ہے جہاں بھٹو پوری آب و تاب سے زندہ ہے وہاں عوام کی بے گورو کفن لاشیں پڑی ہیں۔ صرف تھر کی ہی صورتحال خون رلانے کے کیے کافی ہے۔ جیسی پسماندگی کسمپرسی تھر میں ہے شاید ہی کہیں ہو۔ ہسپتال تو دور کی بات بجلی پانی بھی نہیں ہے۔ اگر تقریر ہی پیمانہ پیمائش ٹھہرا تو چلیے مسجد و محراب و منبر پہ اب بھی کچھ ہستیاں رونق افروز ہیں جن کی خطابت کے آگے فرشتے بھی پر نہیں مارتے۔ ہنسانے پہ آئیں تو پاگل کردیں۔ رلانے پہ آئیں تو آنسو نہ رکھیں۔ شعلہ بیانی پہ آئیں تو آنکھوں سے لہو ٹپکے۔ موجودہ نسل نے کیا مولانا طاہر القادری سے بڑا مقررر بھی دیکھا ہے کوئی؟

جیسی تقریر بلاول نے کی ہے اس سے تو کہیں بہتر تقریر سکولوں کے بچے کرسکتے ہیں۔ دنیا کی بہترین درسگاہوں سے فارغ التحصیل کئی دنوں کی محنت ریاضت سے بھی اگر تقریر نہ ہوگی تو کب ہوگی۔ لیکن لیڈروں کا کام غالباً عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک بات مسائل کی ہے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ وہی کرپشن جس کے تانے بانے بلاول ہاؤس کے محلات تک جاتے ہیں۔ وہی کرپشن جس میں سرے محل، ٹین پرسنٹ، نیکلس اور سوئس اکاؤنٹ وغیرہ کا ذکر آتا ہے۔

دید بان سے کہا ہے مستول پہ چڑھ کے سمندر دیکھ۔ دیدبان کہتا ہے اب بلاول بھٹو زرداری کو نیا لیڈر بنانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ کچھ دنوں میں پرانا مال نئی پیکنگ میں دستیاب ہوگا۔
عوام صدیوں سے تقریریں اور کھوکھلے نعرے سن کر خوش ہو رہے ہیں۔ عشروں سے یہی روش ہے یہی ریت روایت۔ عوام کو نیا لیڈر نیا بھٹو مبارک ہو۔ علاج غم ندارد خوابوں کے محل۔

سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
ہمارے درد کا جالب مداوا ہو نہیں سکتا
کہ ہر قاتل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).