نیا پاکستان اور پہلا تھپڑ


ملکی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں با اثر افراد نے اپنی طاقت کے نشے میں عام لوگوں کا ناصرف استحصال کیا بلکہ اُنہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بعض اوقات اُن کی جان، مال، عزت و آبرو کے درپے بھی ہوگئے، ایسے کئی واقعات ہیں۔ وطن عزیز میں عوام کے استحصال کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ گزرے وقتوں میں اس قسم کے واقعات خال خال ہی منظرعام پر آپاتے تھے، اُن کی اکثریت مخفی رہ جاتی تھی، لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس جدید دور میں اب اُس کی بدولت کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی واقعہ ذرا سی دیر میں دُنیا بھر کی نظروں میں آجاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر با اثر لوگوں، بالخصوص ارباب اختیار و اقتدار کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی چند منٹوں میں سماجی ذرائع ابلاغ پر ٹرینڈ کی صورت چلنے لگتی ہے، جو اُن کی زمانے بھر میں جگ ہنسائی کی وجہ بنتی ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا، جو تحریک انصاف کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ کراچی میں پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی عمران علی شاہ نے اپنی گاڑی سے اُتر کر بیچ سڑک پہ ایک شہری پر تھپڑ برسائے، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، اس واقعے پر پارٹی کی جانب سے اپنے رُکن صوبائی اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جب کہ ڈاکٹر عمران علی شاہ نے اپنے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں کہا کہ کار سوار موٹر سائیکل سوار شہری کو تنگ کررہا تھا، ظلم ہوتا دیکھ نہیں سکتا، بہرحال اُنہوں نے اپنے رویے کی معافی مانگی اور پھر بعد میں بذات خود اُس متاثرہ فرد کے گھر گئے اور معافی کے خواستگار ہوئے، یعنی معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی۔

بلاشبہ یہ واقعہ ہماری قومی سیاست پر بدنما داغ کی مانند ہے۔ کئی ایک سوالات جنم لے رہے ہےں کہ کسی بھی اہم شخصیت کی جانب سے سرعام کسی شہری پر تشدد کیا جائے اور پھر اس سے معافی طلب کی جائے۔ کیا یہ مناسب ہے۔ اس طرح اُن کی معافی قابل قبول ہوگئی؟ اُنہوں نے کس حےثےت میں شہری پر تشدد کیا؟ شہری نے بھلے ہی اُنہیں معاف کردیا ہو، لیکن اسے نئے پاکستان کے دعویداروں میں سے ایک کی جانب سے پورے سماج کے منہ پر طمانچہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رکن سندھ اسمبلی کا اپنی طاقت کے زعم میں شہری کو تھپڑیں رسید کرنا یقیناً افسوس ناک واقعہ تھا، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کہ کسی بھی با اثر فرد کو کسی عام شہری پر بلاوجہ تھپڑ برسانے کا حق نہیں۔ حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پی ٹی آئی کی جانب سے عمران علی شاہ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دینا یقیناً اچھا اقدام ہے، جس کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔

دیکھا جائے تو یہ رکن صوبائی اسمبلی پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، تشدد وہ بھی بزرگ شہری پر جو اُن سے عمر میں خاصے بڑے ہیں، کسی بھی لحاظ سے مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ڈاکٹر عمران علی شاہ کے آبا و اجداد کی ملک و قوم کے لیے خدمات بے شمار ہیں۔ اُن کے والد ڈاکٹر محمد علی شاہ کی بدولت کئی گوہرِ نایاب قومی کرکٹ ٹیم کو میسر آئے۔ فلاحی سرگرمیوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ تاحیات اُن کے خلاف ایک بھی منفی بات سامنے نہیں آئی۔ اتنے نیک نام باپ کے بیٹے سے اس قسم کی مذموم حرکت کی توقع ہرگز نہ تھی۔ اُنہیں کم از کم اپنے آبا و اجداد کی عزت کا پاس تو رکھنا چاہیے تھا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر عمران علی شاہ کے خلاف پارٹی قوانین کے مطابق کارروائی ازحد ضروری ہے، یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کہ کل کو کسی اور رکن قومی و صوبائی اسمبلی سے ایسی حرکت سرزد نہ ہوسکے۔ اس لحاظ سے یہ معاملہ پی ٹی آئی کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس واقعے کا ازخودنوٹس لے لیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں گے۔

یہ حقیقت نہیں تو اور کیا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں عوام نے تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے پر ہی تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور اب اُس کے ایک رہنما کا نامناسب طرز عمل اُس کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ اب جب کہ پی ٹی آئی کی نئی حکومت اپنی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں اور عمران خان ملک کے 22 ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔ بلاشبہ اس میں کپتان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے کہ اُنہوں نے بلاتکان اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور سرخرو ٹھہرے۔ اب اُنہیں اپنے دور حکومت میں سیاسی سوجھ بوجھ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ عمران خان کو ایسی خرابیوں اور خامیوں کو دُور کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اُن کی جانب سے اپنے پارٹی کارکنوں سے لے کر رہنماؤں تک کو اخلاقیات کا سبق پڑھانا ازحد ضروری ہے۔ دوسری طرف تمام سیاست دانوں سے عرض ہے کہ سیاست خدمت کا نام ہے، سیاسی مخالفت میں کم از کم اخلاق کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ماضی کی روایات کو فروغ دیں جب سیاست دان تشدد جیسی بُرائی سے کوسوں دُور تھے اور مخالفین تک کا ادب و احترام کرتے تھے۔ سب سے ضروری ہے کہ لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے عوام کو عزت دیں اور اُن کے مسائل کو حل کرنے کی بنا ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).