اگر سرجن نشے میں ہو تو آپ کیا کریں گے؟ طبی اخلاقیات کے سوالات


اگر ایک خیالی جیل ہو تو انسان اس میں‌ سوچنے سے باہر نکلنے کاراستہ ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ سرمئی کے کئی رنگ کا تیسرا حصہ ہے۔ انٹرنل میڈیسن کی بورڈ رویو کانفرنس میں‌ میڈیکل ایتھکس کا لیکچر کافی دلچسپ تھا۔ اس میں‌ کئی نوعیت کے کیس ڈسکس کیے گئے جن میں‌ سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔ امید ہے کہ یہ کیسز قارئین کو سوچنے پر مجبور کریں‌ گے۔

سوال: آپ کے 66 سال کے مریض ایک طویل بیماری سے گزرنے کے بعد مرچکے ہیں۔ یہ طے نہیں‌ ہو پایا کہ ان کی موت کی کیا وجہ تھی۔ ان کی بیوی چاہتی ہیں کہ پوسٹ مارٹم کیا جائے لیکن ان کی بیٹی جس کے پاس پاور آف اٹارنی ہے وہ پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کررہی ہے۔ ان مریض‌ کے دو اور بھی بچے ہیں‌ جنہوں‌ نے اپنے خیالات کا اظہار نہیں‌ کیا ہے۔ ایسی صورت میں‌ آپ کو کیا کرنا چاہئیے؟

1۔ پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے۔
2۔ پوسٹ مارٹم کیا جائے۔
3۔ تینوں‌ بچوں‌ کے ساتھ میٹنگ کریں‌ اور دیکھیں‌ کہ کیا وہ سب ایک نقطے پر متفق ہیں۔
4۔ مریض‌ کے بھائی سے مشورہ کریں‌ کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے۔

درست جواب: اس کیس میں‌ درست جواب یہ ہے کہ بیٹی کے کہے پر عمل کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم نہیں‌ کیا جائے گا۔ یہاں‌ پر یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ میاں‌ بیوی کا رشتہ زندگی ہونے تک ہی ہوتا ہے۔ جب ان صاحب کی وفات ہوگئی تو یہ رشتہ ختم ہوگیا۔

یہاں‌ پر اپنی انٹرنل میڈیسن کی ٹریننگ کے دوران سیکھے ہوئے ایک دلچسپ کیس کا ذکر کروں‌ گی۔ ایک نوجوان آدمی اپنی شادی کے دو مہینے بعد مر گیا تھا۔ اس کی بیوی، اس کے والدین اور بہن بھائیوں‌ نے ڈاکٹرز سے درخواست کی کہ اس کے ٹیسٹیکلز میں‌ سے اسپرم نکال کر ان کو دے دیں‌ تاکہ اس کی بیوی اس کے بچے پیدا کرسکے۔ پوسٹ ہیومس آرٹیفشل انسیمینیشن یعنی کہ موت کے بعد مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانے کے یہ کیسز اخلاقی، مذہبی اور قانونی لحاظ سے کافی پیچیدہ ہیں۔ ہر ملک کے اس بارے میں‌ مختلف قوانین ہیں۔ جب موت کے بعد شادی ختم ہوگئی تو پھر اس طرح‌ آرٹیفشل انسیمینیشن یعنی مصنوعی طریقے سے اس کی بیوہ میں‌ حمل ٹھہرانا مناسب ہے؟

جب ایک آدمی مر چکا ہے تو وہ انفارمڈ کانسینٹ یعنی معلومات حاصل کرکے اپنی مرضی بتانے کی پوزیشن میں‌ نہیں ہے۔ فرانس نے 1994 میں‌ اس کو غیر قانونی قرار دیا۔ اسرائیل موت کے ایک سال کے اندر حمل قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مختلف امریکی ریاستوں میں‌ پوسٹ ہیومس انسیمینیشن سے متعلق مختلف قوانین ہیں۔ اس طریقے سے پہلی مرتبہ ایک بچہ 1989 میں‌ پیدا ہوا تھا۔ آج کی دنیا میں‌ ہر انسان کو خود پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ معلومات ان خواتین کے لیے اہم ہوسکتی ہیں جن کو مالی سہارے کے لیے اپنے مرحوم شوہر کے وارث کی ضرورت ہو۔

یہاں‌ پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر مریض کے لواحقین پوسٹ ہیومس انسیمینیشن کی درخواست کررہے ہیں تو کیا ایک ڈاکٹرکے لیے لازمی ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرے؟ اس کا جواب ہے کہ کسی بھی ڈاکٹر کو کچھ بھی ایسا کرنے پر مجبور نہیں‌ کیا جاسکتا جس پر وہ کسی بھی لحاظ سے معترض ہوں۔

سوال: آپ کے ایک سرجن کولیگ نے آپ کے ایک مریض کے پتے کی سرجری کی ہے۔ جب آپ اپنے مریض‌ کو دیکھنے گئیں اور سرجن سے بات کی تو دیکھا کہ سرجن کے منہ میں‌ سے شراب کی بو آرہی ہے اور ان کی زبان بھی لڑکھڑا رہی ہے اور ان کا دماغ ٹھیک نہیں‌ لگ رہا۔ آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

1۔ سرجن کا یہ رویہ نظر انداز کردیں۔
2۔ یہ بات ہسپتال کے بورڈ کے سامنے فوری طور پر لائی جائے۔
3۔ سرجن کی بیوی سے بات کریں۔
4۔ سرجن سے خود بات کریں‌ اور ان پر زور ڈالیں کہ وہ اپنا علاج کرائیں۔

یہاں‌ پر میڈیکل بورڈ سے فوری طور پر رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ڈاکٹر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے مریضوں‌ کی بھلائی ہے۔ ایک نشے کا شکار سرجن آپ کے مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر ہونا ویسے ہی ایک بہت ذہنی دباؤ والا کام ہے اور ہر سال بہت سے ڈاکٹر خود کشی کرلیتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین ڈاکٹرز میں‌ خودکشی کی شرح‌ دیگر شعبوں‌ سے زیادہ ہے۔ عام انسانو‌ں کی طرح‌ ڈاکٹرز میں‌ بھی ذہنی بیماریاں، نشے کی عادت اور دیگر بیماریاں‌ ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں‌ ڈاکٹرز کو بھی بلاجھجھک مدد حاصل کرنی چاہئیے۔

میڈیسن کا پہلا اصول ہے کہ ”ڈو نو ہارم“ یعنی کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ کسی بھی سوال کا جواب انفرادی صورت حال پر مبنی ہوتا ہے۔ دنیا میں‌ کالا سفید کچھ بھی نہیں۔ ان کے بیچ میں‌ سرمئی کے کئی رنگ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی اور صحت سے متعلق فیصلوں‌ کا حق حاصل ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ ان حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔

21 اگست 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).