ایک استاد کی یاد میں


نام ان کا گل حسن تھا، لوگوں کیلئے وه ایک عام شخص تھے، ان کےشاگردوں کیلئے ایک شفیق استاد، میرے لئے وہ ایک احساس کا نام ہیں ۔ ایک ناقابلِ بیان احساس۔ لفظوں میں اس احساس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس احساس کے بطن سے کتنے ہی جزبوں نے زندگی پائی اور میری زندگی کو منور کرتے چلی گئی۔
شائد پانچ برس کا تھا، زہن کے پردے پر ایک موہوم سا نقش آج بھی قائم ہے۔ میرے مرحوم و مغفور والد ایک صبح مجھے سکول لے گئے ۔ بس اتنا یاد ہے کہ ہیڈماسٹر صاحب کا کمرہ تھا اور میرے والد ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے شائد کوئی ہندسہ لکھنے کو کہا اور میں نے جھٹ سے فرش پر لکھ ڈالا۔ سکول کا چوکیدار آیا اور مجھے لے جا کر بچوں کے ایک ریوڑ میں چھوڑ دیا۔ کچھ ہی دن بعد کا ایک واقعہ البتہ آج بھی زہن پر ہتھوڑے برساتا ہے۔ اچانک ایک استاد آتے ہیں اور ہم پر ڈنڈے برسانا شروع کرتے ہیں۔ کمرہ تو تھا نہیں ، میں سہم کر ایک کونے میں بیٹھ گیا لکین کم بخت ڈنڈہ اُدھر بھی پہنچ گیا اور میرے سر پر برسنا شروع ہوگیا۔ دو سال ایسے گزرے کہ ایک استاد آتے تھے اور کبھی کبھار ا۔انار اور ب۔ بکری پڑھا کر چلے جاتے تھے۔
دوسری جماعت کے آغاز تک نصیب میں وہی استاد تھے جنھوں نے کچھ نہ پڑھانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ سکول دنیا کی سب سے بکواس جگہ لگتی تھی۔ اب تک کلاس روم نصیب نہیں ہوا۔ ہاں البتہ اس کونے سے نکل کر ایک چھوٹی سی ندی سی تھی جس کے کنارے ایک درخت کے سائے میں آگئے۔ اس ندی کو ہمارے گاوں میں عِراب کہتے تھے، پتہ نہیں کیوں؟
ایک دن ادھر ہی بیٹھے تھے کہ ایک معمر آدمی آگیا۔ آتے ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔ رجسٹر اٹھایا، حاضری لی اور پڑھانا شروع کردیا۔ مجھ سمیت سارے بچے حیران و پریشان کہ یہ کیا ہونے لگا۔ ایک کے بعد دوسرا مضمون نکالتے چلے گئے اور یوں پڑھا رہے تھے جیسے ایک لمحہ ضائع کیا تو قیامت آجائے گی۔
بریک ہوئی تو ہم سارے بچے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہوگیا؟ ایک ساتھی نے کہا گل حسن استاد ٹیسٹ بھی لیتے ہیں اور اگر فیل ہوجائے تو بہت مارتے ہیں۔ ہمیں پچھلے استاد بہت یاد آنےلگے کہ نہ پڑھاتے تھے اور نہ مارتے تھے کیا ہی اچھے انسان تھے۔ اچھا بھلا وقت گزر رہا تھا، یہ کیا آفت آگئی۔ بریک ختم ہونے کے بعد آدھے سے زیادہ بچے حسب معمول دیر سے آئے تو سرزنش کی اور ساتھ ہی وقت کی پابندی کی تلقین کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، رسول اللہ (صلعم) کے اسوۂ حسنہ سے مثالیں دیں۔
اس دن سے زندگی تبدیل ہونی شروع ہوئی۔ اس انہماک اور دلجمعی سے پڑھاتے چلے گئے کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ دو ہفتے بعد ٹسٹس لینے شروع کئے۔ اوّل اوّل چند ہی بچے پاس ہوتے، باقی سب کو ڈنڈے کھانے پڑتے۔ رفتہ رفتہ نتائج بہتر ہوتے گئے تو سزا خود بخود کم ہوتی چلی گئی۔ بات ڈنڈوں سے کان کھینچنے پر آگئی۔ کان کھینچتے تو ساتھ ہی کوئی شگفتہ بات کرتے، سب بچے ہنس پڑتے۔ میرے کان کھینچنے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ دل میں عجیب خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میرے کان بھی کھینچ لیں۔ لائق سٹوڈنٹس سے اکا دُکا غلطی ہوجاتی تو رعایت فرماتے کہ سزا دینے کا شوق نہیں تھا۔ ایک دن گندی لکھائی پر میری پکڑ ہوئی ، وہ کان کھینچے کہ پھر زندگی بھر یہ خواہش دل میں جاگ نہ سکی۔ چوتھی جماعت تک ہمیں پڑھایا ، پڑھایا کیا، دل و دماغ منور کر دئے۔
ہمارے گاوں میں چالیس سال رہے، ہزاروں نے ان سے فیض پایا۔


گاوں میں عورتیں ان سے پرده نہیں کرتی تھی۔ زیاده تر سکول میں رہتے۔ چھٹی ہوتے ہی اپنی سائیکل پر گھر کیلئے روانہ ہو جاتے۔ سائیکل کے آگےکپڑے کا ایک تھیلا ہمیشہ لٹکتا رہتا۔ بازار سے سبزی وغیرہ خریدتے تو تھیلے میں ڈال دیتے۔ کبھی کبھار سکول سے نکل کر کسی کی خوشی غمی میں شرکت کیلئےباہر نکلتے۔ تو عورتیں اور لڑکیاں سلام کیلئے رک جاتیں ۔ جس گلی سے گزرتے بچے بھاگ کر ماوں کو بتاتے ‘گل حسن استاد جی آئے ہیں’؛ عورتیں سلام کیلئے گھروں سے نکل آتی۔ زندگی بھر کسی نے ان سے گالی تو کیا اخلاق سے گرا ہوا لفظ بھی نہیں سنا۔ سکول کے ہیڈماسٹر سے کبھی نہیں بنی۔ اسی وجہ سے بریک میں سٹاف روم نہیں جاتے، چوکیدار کو پیسے دے کر اپنے لئے الگ چائے بناتے اور اکیلے ہی بیٹھ کر پی جاتے۔ ہمارے کچھ ساتھی غصہ دلانے کیلئے کہتے کہ ہیڈماسٹر صاحب ہماری کلاس کو خوامخواہ ڈانٹے ہیں ، سن کر غصہ آجاتا تو کہتے کوئی بات نہیں اس کا ایک رگ زیادہ ہے( ہیڈماسٹر صاحب ایک پاؤں سے معزور تھے)۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کا تبادلہ ہوا تو استادِ محترم خلاف توقع افسردہ نظر آئے۔ کچھ دن بعد ہیڈماسٹر صاحب اساتذہ کی دعوت پر سکول تشریف لائے تو گل حسن صاحب ہمیں پڑھا رہے تھے۔ ہیڈماسٹر صاحب پر نگاہ پڑی تو ان کی طرف لپکے، یوں بغل گیر ہوئے جیسے کسی ہمدمِ دیرینہ سے سالوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ ہیڈماسٹر صاحب کی گرمجوشی بھی دیدنی تھی۔ سارے اساتذہ اور سٹوڈنٹس حیرت میں ڈوبے دم بخود کھڑے دیکھتے رہے۔
اپنے طالبعلموں کی ایسی حوصلہ افزائی کرتے کہ خداداد صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجاتی۔ ایک دفعہ پشتو کا ‘ګ’ اردو کے ‘گ’ سے بدل دیا۔ ان ہی کی پیدا کردہ خود اعتمادی کے بدولت میں نے نشاندہی کردی۔ ایسے خوش ہوئے کہ جیسے میں نے کوئی بڑا معرکہ سر کیا ہو ، وہ داد دی کہ جیسے میں نے اُن کی کھوئی ہوئی دولت لوٹا دی ہو۔
عجیب بلکہ عجیب و غریب آدمی تھے۔ سکول میں بچے دوسری جماعت تک باہر ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے، کمرہ، ڈیسک اور بینچ تیسری جماعت میں نصیب ہوتے تھے۔ ہم دوسری جماعت سے تیسری میں پہنچے تو سب سے زیادہ خوشی ان ‘آسائشوں’ کی تھی۔ اس دن سکول گئے تو کمرے میں جانے سے روک دیا اور ٹاٹ پر باہر ہی بیٹھنے کا حکم دیا۔ ہم سب کے چہرے اتر گئے۔ اِدھر اُدھر التجائیں کیں لیکن شنوائی نہ ہو سکی۔ نتیجتاً ہم سے جونیئر کلاس کو کمرہ، ڈیسکس اور بینچز میسر آئیں اور ہم سارا سال کڑھتے ہی رہے۔ اگلے سال یہ نعمتیں میسر آئیں تو ایک ہی ہفتے میں جی بھر گیا، اپنے ٹاٹ اور کھلی فضاء بہت یاد آئی۔
ان کے ان گنت شاگرد آج کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ گوشہ نشین ہوگئے۔ پھر نوشہرہ میں جوتوں کی ایک سٹال قسم کی دکان کھولی۔ ایک تخت پر کچھ جوتے پڑے ہوتے۔ وہ جس نے ہزاروں سٹوڈنٹس کی تر بیت کا حق احسن ترین طریقے سے ادا کیا، نامساعد حالات کے باوجود قوم کے نونہالوں کی تربیت کی۔ ان کےکئی شاگرد ڈاکٹر، انجینیرز، سول سرونٹس ، آرمی آفیسرز بنے، خود عمر کے آخری حصے میں بازار کے بیچ بیٹھ کر جوتے فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجھے یاد آیا ان کے ایک شاگرد کیپٹن محمد اقبال شہید نے سیاچین کے برف پوش پہاڑوں میں اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر داد شجاعت دیتے ہوئے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی اور اپنوں سے تو کیا دشمن فوج سے بھی داد شجاعت پائی۔ کپٹن اقبال شہید ایس ایس جی سے تعلق رکھتے تھے۔ نشان حیدر کے بعد دوسرا فوجی اعزاز ان کے حصے میں آیا جو ان کے سوا ایس ایس جی سے تعلق رکھنے والے کسی فوجی کو آج تک نہ مل سکا۔ کپٹن اقبال شہید کے محاز جنگ سے لکھے گئے خطوط اور ان کی وصیت نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اس مرد مومن کی شہادت نے جنرل ضیاء کو بھی بہت متاثر کیا۔ جنرل ضیاء نے اُن کا تذکرہ کئی لوگوں سے کیا اور ایک دفعہ سینٹ میں خطاب کے دوران کیپٹن اقبال کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ میرا گمان ہے کہ جنرل ضیاء کی زندگی کے آخری چند مہینے کیپٹن اقبال کے جذبۂ شہادت کے زیر اثر گزرے۔ کپٹن اقبال کا جسد خاکی شہادت کے تقریباً ایک سال بعد ملا، اس سے چند دن پہلے جنرل ضیاء کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا تھا۔
میری شریکِ حیات سعدیہ بھی ان کی شاگرد ہے۔ ایک دن گھر آئی تو افسردہ تھی۔ کہنے لگی نوشہرہ میں ایک دکان پر گل حسن صاحب کو جوتے فروخت کرتے دیکھا۔ ساتھ بڑی بہن بھی تھی ، وہ بھی اُن ہی کی شاگرد۔ پاس گئیں تو نقاب کے باوجود دونوں کو پہچان لیا، ناموں سے پکارا،اُن کی اداسی بھانپ لی۔ کہنےلگے بیٹی ویسے ہی کبھی کبھار چکر لگا لیتا ہوں، یہ میرے دوست کی دکان ہے، اس کے ساتھ گپ شپ کیلئے آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر کہنے لگے، ‘گھر چلو آپ کو دیر ہو رہی ہے’
سعدیہ نے جب یہ قصہ سنایا تو اگلے دن میں ان سے ملنے ان کے گاوں گیا۔ پوچھتے پوچھتے ان کے گھر پہنچا۔ جوں ہی مجھے دیکھا، دور سے بولے’ باقی جان؛ میرا ہونہار شاگرد’۔ چائے منگوائی۔ان کی خوشی دیدنی تھی۔ مجھے شرمندگی نے آ لیا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھ بیٹھا ‘میرے لائق کوئی خدمت’؛ بولے بیٹا تم مجھ سے ملنے آۓ ہو اور مجھے کیا چاہئے؟۔ مزید بیٹھنا مشکل تھا، میں نے اجازت چاہی تو باہر چھوڑنے آئے۔ باہر میری گاڑی دیکھی تو اتنے خوش ہوئے، جتنا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو کامیاب دیکھ کر خوش ہوتاہے۔
وه شاید میرے دل کی حالت جان گئے، گلے لگا کر رخصت کردیا
اکثر یاد آتے ، کئی دفعہ اراده کیا ملنے کا لیکن نہ جا سکا۔ کچھ عرصہ پہلے پکا ارادہ کیا کہ چھٹی کے دن ملنے جاؤں گا، پر پتہ چلا کہ گل حسن استاد دارِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں
کسی سے سنا کہ اولاد کے ہاتھوں شاکی رہے، عمر کا آخری حصہ غم و آلام سے بھرا رہا۔ قدرت کے بھی عجیب رنگ ہیں، آدمی سوچتا ہے تو دل و دماغ ماؤف سے ہو جاتے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).