فلسفے کی تعلیم اور الحاد سے خوف زدہ یونیورسٹی


کوئی بیس برس پرانی بات ہے کہ ایک نجی یونیورسٹی میں مجھے ایک کورس پڑھانے کی دعوت دی گئی جس کا عنوان تھا:

Thinking and Learning

 زیادہ تر طلبہ کا مضمون کمپیوٹر سائنس تھا اور انھوں نے ایف ایس سی کیا ہوا تھا۔ لیکچرز میں بعض مثالیں دیتے ہوئے میں نے ماؤزے تنگ اور سٹالن کا بھی ذکر کیا۔ ایک دو لیکچروں میں تو وہ خاموش رہے لیکن پھر سب نے بیک آواز پوچھا کہ یہ کون لوگ تھے۔ ایک بار تو میں صدمے سے گنگ سا ہو گیا پھر میری زبان سے بس یہی الفاظ نکلے زمانہ واقعی بہت بدل گیا ہے۔

ایک دن مجھے اس یونیورسٹی سے فون آیا کہ ڈین صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں اس لیے میں کلاس سے کچھ پہلے وہاں آ جاؤں۔ جب میں وہاں پہنچا تو ڈین صاحب نے دو اور سینیر اساتذہ کو بھی بلا رکھا تھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ معمول کی میٹنگ نہیں ہے بلکہ کچھ سیریس معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈین صاحب اور دونوں دیگر اساتذہ امریکہ کی بہت اچھی یونیورسٹیوں سے ڈگری یافتہ تھے۔

ڈین صاحب نے بلا تمہید مجھے کہا ہمیں شکایت ملی ہے کہ آپ کلاس میں مذہب کے خلاف بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بہت مبہم بات ہے۔ آپ متعین طور پر بتائیں کہ شکایت کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا آپ نے کہا ہے کہ شق قمر کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اس پر میں نے کہا بات اس طرح نہیں ہوئی تھی۔ میرا کہنا تھا کہ شق قمر کی کئی روایات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ابھی پنگھوڑے میں تھے تو آپ کی انگلی اٹھ گئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا آپ کی بغل کے نیچے سے ہوتا ہوا واپس جا کر دوسرے ٹکڑے سے مل گیا۔ یہ روایت اس لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ روایت بیان کرنے والے کے نزدیک چاند کا سائز بس ایک روٹی کے برابر ہے۔

ڈین صاحب نے پھر اعتراض کیا کہ آپ جو کورس پڑھا رہے ہیں اس میں یہ مثال بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے جواب دیا طالب علموں کو یہ سمجھا رہا تھا کہ جب کوئی دعویٰ کیا جاتا ہے تو اس کے تائیدی شواہد بھی اس کے مطابق ہی ہونے چاہییں۔ وہ مطمئن تو شاید نہ ہوئے مگر خاموش ضرور ہو گئے۔

اگلے سمیسٹر میں انھوں نے دوبارہ بلا کر فلسفے کا کورس پڑھانے کو کہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ نصاب میں اسلامی فلسفہ بھی ضرور شامل کریں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے طلبہ فلسفہ پڑھ کر ملحد ہو جائیں۔ میں نے جواب دیا اگر آپ کو فلسفے سے اتنا ڈر آتا ہے تو پھر یہ کھٹراگ رچانے کی ضرورت کیا ہے۔

ہمارے ہاں اس بات کو بہت فخریہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں تعلیمی ادارے میں اتنے اساتذہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور ان میں بھی اتنے فارن کوالیفائڈ ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہمارے افراد قوم اگر امریکہ اور برطانیہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر بھی آ جائیں تو رہتے مولوی عبد الودود ہی ہیں۔ ( مولوی عبد الودود پر سید محمد جعفری کی بہت عمدہ نظم ہے: مولوی صاحب جنت میں)۔

لٹریری ہسٹری آف پرشیا کے مصنف مسٹر براؤن نے کئی برس تک ایران میں قیام کیا تھا۔ اس نے بعد ازاں ایرانی علما کے متعلق اپنا یہ تاثر بیان کیا تھا کہ ان کی اکثریت میں ایمان کا فقدان تھا۔ میں بھی کچھ آئمہ مساجد سے ملا ہوا ہوں جو قریب قریب ملحد تھے لیکن روزی روٹی کی خاطر وہ نمازوں کی امامت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔

کچھ ایسا ہی حال سائنس کے اساتذہ کا ہے۔ ان کی اکثریت کو سائنسی فکر کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔ نہ وہ سائنس کو کسی درجے میں درست سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ذہنی اور قلبی طور پر وہ کٹھ ملا ہوتے ہیں۔ بس ڈگری کے سہارے نوکری ملی ہوئی ہے۔ ان کی اکثریت طلبہ کو سائنس سے بدظن کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ طبیعیات کے کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے اساتذہ کی استعداد پر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے بعض بہت عبرت انگیز حقائق بیان کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ان کی مرتبہ کتاب: ریاست اور تعلیم پاکستان کے پچاس سال۔ اردو ترجمہ خلیل احمد)

سائنس کے اساتذہ کا بطور خاص ذکر کرنے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے طلبہ میں بہترین اذہان سائنس کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر باقی اساتذہ کی کارکردگی کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ آپ طبیعیات کی جگہ کسی بھی اور مضمون کا نام لکھ دیں صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ اساتذہ طالب علم کے فہم و شعور کو بیدار کرتے ہیں، نہ اس میں تجسس کی خو پیدا کرتے ہیں بلکہ مشہور برطانوی فلسفی وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں “مردہ افکار” طلبہ کے ذہن میں انڈیل کر سمجھتے ہیں کہ تعلیم کا فریضہ ادا ہو گیا ہے۔ چند فارمولے رٹو، اچھے نمبر لو اور جا کر نوکری تلاش کرو۔ بس یہی ہے تعلیم کا ماحصل ہمارے نزدیک۔

مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ٹیکسٹ بک بورڈز کی نصابی کتب ہیں۔ میرا بیٹا ایف ایس سی کر رہا تھا۔ ایک بار اس کی کیمسٹری کی کتاب کا پہلا صفحہ پڑھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے لیکن ایک صفحے میں انگریزی زبان کی تین غلطیاں موجود ہیں۔ برطانوی فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے کہا تھا کہ مابعد الطبیعیات پر لکھی ہوئی کتابوں کو نذر آتش کرنا بنتا ہے۔ ہیوم کی بات کا تو پتہ نہیں لیکن ہمارے ٹیکسٹ بک بورڈز کی شایع کردہ نصابی کتابوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا کچھ نا مناسب نہیں ہو گا۔ یہ کتابیں مضموں غلط، انشا غلط کی بدترین مثالیں ہیں۔

اصلاح کے لیے میں عمارت کی از سر نو تعمیر کا کبھی قائل نہیں رہا لیکن ہمارا تعلیمی نظام اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سب سے زیادہ خرابی سکولوں میں ہے۔ اگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی اکثریت میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ وہ اپنی محدود صلاحیت کو دیانت داری سے استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں تو سکولوں کے اساتذہ کی حالت زار کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔

کیا ہم اساتذہ کی کوئی ایسی کھیپ تیار کر سکتے ہیں جو علم اور تحقیق سے رغبت رکھتے ہوں، کتابوں کو سوچ سمجھ کر پڑھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ نیز ان میں نصاب کے علاوہ بھی کتب بینی کا ذوق ہو۔ اگر ایسے اساتذہ میسر آ سکیں تو اس جہالت کے اس بحر بیکراں سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).