کنویں کے مینڈکوں کی بعض اقسام


کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک بگلے نے دریا سے مچھلی پکڑی۔ اس مچھلی نے اپنی جان بچانے کے لئے بہت مزاحمت کی۔ قسمت نے یاوری کی اور وہ بگلے کی چونچ سے نیچے سیدھا ایک کنویں میں جا گری۔ کہتے ہیں کہ وہ کنواں ایسے مینڈکوں کا مسکن تھا جو وہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ جب اچانک انہوں نے مچھلی جیسی عجیب مخلوق کو دیکھا تو بڑے حیران اور خوف زدہ ہوئے۔ ایک مینڈک ڈرتے ڈرتے قریب آیا اور دریافت کیا کہ آمد کہاں سے ہوئی ہے؟ مچھلی نے بتایا کہ دریا میرا گھر ہوتا تھا اور میں پانیوں میں رہتی تھی۔ مینڈک نے پوچھا کہ یہ دریا کیا ہوتا ہے؟ مچھلی نے بتایا کہ وہاں بہت سارا پانی ہوتا ہے جو زور و شور سے بہتا ہے۔ سارے مینڈک سن کر بڑے حیران ہوئے۔ سب یہ ماننے سے انکاری تھے کہ مچھلی سچ بول رہی ہے۔ آخر کونسی جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں پانی ان کی اس دنیا سے زیادہ ہو سکتا ہے؟ اس کنویں سے بڑی جگہ تو ہر گز ہو ہی نہیں سکتی! دریا کی مچھلی پریشان تھی کہ آخر ان کنویں کے مینڈکوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ اس کنویں کے باہر بھی دنیا ہوتی ہے جو بہت وسیع و عریض ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگوں نے یہ کہانی پڑھ رکھی ہے اور اپنے ارد گرد ایسے لوگوں سے واقف بھی ہیں جن پر کنویں کے مینڈک کا لقب خوب جچتا ہے۔ در حقیقت ہمارے ملک میں ان مینڈکوں کی بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس چھوٹے سے مضمون کا مقصد ان کی اہم اقسام کا احاطہ کرنا ہے۔

سیاسی کنویں کے مینڈک: ان مینڈکوں سے آشنائی پہلی بار اس وقت حاصل ہوئی جب تعلیم کے سلسلے میں پہلی مرتبہ کراچی اور ملک سے باہر جانا ہوا۔ شمالی یورپ کے ملک سویڈن میں تعلیم حاصل کرنے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے ملک کے ہر کونے سے بھی لوگ کثیر تعداد میں آتے تھے۔ جب بھی ان میں سے کسی سے ملاقات ہوتی اور تعارف کی نوبت آتی تو ایک نعرہ لگتا تھا۔ ”اچھا تو کراچی سے ہیں الطاف بھائی کے سپورٹر“

کراچی میں گزرے شب و روز میں شاید ہی کبھی ایسا موقع آیا ہو کہ ایم کیو ایم کی حمایت کی ہو۔ ہر پل مخالفت اور ان کے حامیوں سے الجھتے ضرور رہے۔ ایسے رویہ کا سامنا حیران اور پریشان کن تھا۔ لاکھ ان کو سمجھایا کہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں ایسا نہیں ہے اور کراچی میں بہت سارے لوگ ہیں جو مختلف سیاسی نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ مگر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی مینڈک کو یہ نہیں سمجھا سکتے تھے۔ اگلی ملاقات پر پھر وہی ”بھائی کے سپورٹر“ کا نعرہ ہوتا تھا۔

یہ واقعات سن 2009 کے ہیں۔ لگ بھگ اسی وقت سوشل میڈیا پر ایک شدت پسند قوت جنم لے رہی تھی جو ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت کے حامیوں کی تھی۔ ان کا کام پوری شدت سے اس جماعت کا دفاع کرنا تھا۔ خیر یہاں تک تو سب درست تھا مگر اس قوت کو یہ برداشت نہ تھا کہ کوئی شخص سوشل میڈیا پر اس کے بانی کپتان پر تنقید کر سکے۔ آپ کو کپتان کے بیانات چبھ رہے ہوں یا اس کے یو ٹرن۔ چاہے آپ اس کے ہمدرد ہی کیوں نا ہوں جو صرف اس لئے تنقید کر رہے ہوں کہ آپ اس سے کچھ بہتر کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ ایسی جرات نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو جاہل ہیں، پٹواری ہیں، اگر صحافی ہیں تو لفافہ لیتے ہیں! اب آپ لاکھ انہیں بتانے اور سمجھانے کی کوشش کریں کہ نون لیگ سے دور دور کا بھی تعلق اور واسطہ نہیں۔ مگر اس کنویں کے مینڈک کی پٹواری کی گردان کبھی ختم نہیں ہو گی!

محب وطن کنویں کے مینڈک: ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ ادارے بھی انسان ہی بناتے اور چلاتے ہیں۔ سو غلطی، کمی اور کوتاہیوں سے مبرا کچھ نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر پائے جانے والے محب وطن مینڈک کی رائے البتہ کچھ اور ہے۔ آپ صرف اس وقت تک محب وطن ہیں جب تک زبان اور قلم فوج کی تعریف میں رطب للسان ہیں۔ اگر آپ نے بھولے سے بھی یہ سرخ لکیر پھلانگ لی اور فوج کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کا مشورہ دے ڈالا، سیاست میں دخل اندازی سے دور رہنے کی درخواست کر دی، فوج کے کاروباروں سے متعلق کوئی گستاخانہ سوال پوچھ لیا، یا پھر جبری گمشدگیوں کا معاملہ حل کرنے کی عاجزانہ درخواست کر دی۔ تو آپ غدار ہیں، ملک دشمن ہیں، اور را کے ایجنٹ ہیں! آپ ان کو لاکھ بتائیں کہ خود آپ اس ملک کے شہری ہیں اور اپنے انداز سے اس ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ فوج اور ملک کا بھلا چاہتے ہیں۔ اور اس ملک کا پھلنا، پھولنا اور آگے بڑھنا ہر دوسرے شہری کی طرح آپ کی بھی خواہش ہے اور اداروں کا مفاد بھی اسی میں ہی ہے۔ مگر آپ کی دلیلیں چاہے کتنی ہی وزنی ہوں اس کنویں کے مینڈک کے آگے ایسے ہی ہیں جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔

مذہبی کنویں کے مینڈک: یہ مینڈکوں کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ اس قسم کے مینڈک کے نزدیک آپ صرف اچھے مسلمان اسی صورت میں ہیں جب آپ اس کے مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کے مسلک سے تعلق رکھنے والا ہر عالم اللہ کا ولی اور مخالف مسلک والا شیطان کا پیروکار ہے جس کے بارے میں فحش اور اخلاق سے گری ہوئی پوسٹس لگانا ایمان کا حصہ ہے۔ ایک تیر بہدف نسخہ بھی ان کو میسر ہے اور اس کا استعمال بھی پچھلے کچھ عرصے سے زور و شور سے جاری ہے۔ اگر آپ ان کی باتوں سے اختلاف کریں تو آپ قادیانی نواز، یا پھر ختم نبوت کے قانون کے مخالف ہیں۔ اب کس میں ہمّت ہے کہ اس بیانیہ کے آگے کھڑا ہو سکے؟ بلکہ طاقت والوں کی ٹانگیں بھی یہاں آ کر کانپ جاتی ہیں اور شر پسند ”اپنے“ بن جاتے ہیں۔ پچھلی دو اقسام کے برعکس یہ قسم اس لئے بھی خطرناک ہے کہ یہ جان دینے اور لینے کے لئے ہر گھڑی تیار ہے۔ ان کا برین واش کر کے چاہے آپ کسی کو گستاخ قرار دے کر قتل کروا دیں یا پھر انہیں بازار اور مسجدوں میں پھٹنے کے لئے کہہ دیں، سب ممکن ہے کیوں کہ ان کے نزدیک یہ جنّت کا شارٹ کٹ ہے۔

سوشل میڈیا پر بد گوئی کی جنگ عظیم برپا کرنے والے ان مجاھدین کی حیثیت شاطر کے پیادے سے زیادہ نہیں۔ یہ ان کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں جنہیں جانتے نہیں۔ اس مقصد کے لئے جنگ کر رہے ہوتے ہیں جس کے بارے انہیں خود کچھ آگہی نہیں ہوتی۔ جن دماغوں میں تشکیک، سوالات، اور جستجو کو ہونا چاہیے تھا وہاں یقین اور اندھا اعتقاد ہے اور شرک کی حدوں تک پہنچتی ہوئی شخصیت پرستی ہے۔ شاطر اچھی طرح جانتا ہے کہ ان پیادوں کو کیسے استعمال کرنا ہے وہ انہیں کبھی یوتھ، تو کبھی ففتھ جنریشن جنگ کا سپاہی کہہ کر پشت تھپتھپاتا ہے، اور کبھی ختم نبوت کا مجاہد کہہ کر جذبات بھڑکاتا ہے۔ پھر یہ پیادے استعمال ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بد گوئیاں کرتے، جان دیتے اور لے لیتے ہیں۔ وہ جنہیں اچھا شہری بن کر اس ملک کی ترقی کا معمار بننا ہوتا ہے، اپنے کردار، مستقبل، اور زندگی تک کو داؤ پر لگا کر خود کو ایک عظیم مقصد کا حصّہ اور اپنی ذات کو معتبر تصور کرتے ہیں۔

شاطر کو مگر کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ ایسے بے لوث سپاہی ہیں جنہیں کام کرنے کے لئے نہ تنخواہ چاہیے ہوتی ہے نہ اپنی زندگی کی پرواہ ہوتی ہے۔ اگر یہ جان سے بھی چلے جائیں تو سیاست چمکتی اور کاروبار بڑھتا ہے۔ بساط پر پیادوں کی تعداد مگر کبھی کم نہیں ہوتی!

بقول شاعر۔
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی با حیلہ مذہب کبھی بنام وطن

کہا جاتا ہے کہ اس کنویں میں ایک شخص نے پانی نکالنے کو ڈول ڈالا تو ساتھ ایک مچھلی اور مینڈک بھی نکل آیا۔ وہ نیک دل شخص دونوں کو دریا کی طرف لے چلا۔ وہ پہلی بار تھا جب کنویں کے مینڈک نے دریا دیکھا اور ایک نئی دنیا سے آشنا ہوا جو اس کے سیلن زدہ کنویں کے گھٹے ہوئے ماحول سے بالکل مختلف‘ کھلی اور خوبصورت تھی۔
دعا ہے کہ کنویں کے تمام مینڈکوں کو دریا دیکھنا نصیب ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).