کلدیپ نیئر سے ڈیڑھ ملاقات


2008ء میں گورنمنٹ کالج میں ایک کانفرنس تھی۔ ہندونستان سے گوپی چند نارنگ، کلدیپ نیئر، مشیر الحسن اور رخشندہ جلیل نے شرکت کی۔ گوپی چند نارنگ کے ادبی کام اور لذتِ تقریر کا پہلے سے قدردان تھا اور برسوں پہلے اُنہوں نے میرے ایک آدھ خط کا جواب بھی دیا تھا ۔

مشیر الحسن اُس وقت جامعہ ملیہ دہلی کے وائس چانسلر تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جامعہ ملیہ دہلی کا تصور میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے بغیر کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جامعہ اور ذاکر صاحب کا تذکرہ تحریروں اور گفتگو میں ہمیشہ ایک ساتھ ہی ہوتا ہے اور اس میں شاید میرے ذاتی حوالے سے دیوانِ غالب نسخہ برلن کی بھی ایک وجہ ہو ۔

رخشندہ جلیل نے اُردو ادب کے کئی فن پاروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ قرۃ العین حیدر پر اُنہوں نے ایک عمدہ کتاب انگریزی میں تحریر کی۔ آل احمد سرور کی نواسی ہونے کے حوالے سے بھی اُن کو جانتا تھا ۔

مجھ جیسے کم علم بھی کلدیپ نیئر صاحب کے صحافتی قد کاٹھ سے آگاہ ضرور تھے مگر کلدیپ نیئر صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج سے کئی دہائیاں پہلے میں گورنمنٹ کالج لاہور بطور طالب علم داخلہ لینے آیا تھا داخلہ تو مجھے نہ مل سکا مگر گورنمنٹ کالج کو میں کبھی فراموش نہیں کر پایا۔

سیشن کے اختتام ہر جب وہ چھڑی کے سہارے ہال سے باہر جا رہے تھے تو میں نے اُن سے کہا اگر آپ برسوں گورنمنٹ کالج کو فراموش نہیں کر پائے، تو ہم بھی آپ کو بھولے نہیں۔ آج بطور مہمان مقرر آپ کی آمد اس بات کی گواہی ہے

ہال کے باہر لان میں پڑے بینچ پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے ٹھیٹ پنجابی لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ رہتے تو تم لاہور ہو مگر تمھارا آبائی علاقہ کونسا ہے ؟

سر ! سرگودھا

انہوں نے پوچھا سرگودھا کو سرگودھا کیوں کہتے ہیں؟ میں نے سنی سنائی روایت پنجابی میں بیان کر دی۔ وہ فوراً بولے، کوئی لوک گیت جس میں سرگودھا کا ذکر ہو، وہ سناؤ۔

چند لمحوں کے توقف کے بعد میں نے کہا۔ وہ ایک ڈھولا ۔۔۔ نہیں سر، ماہیا ہے

بوتل سوڈھے دی

تیرے نال چڑھی ہاں

سیر کریساں سرگودھے دی

نیئر صاحب نے ایک فلک شگاف نعرہ لگانے کے بعد کاغذ کے چھوٹے سے پرزے پر میرا فون نمبر لکھا۔ وہ شاید جم خانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دوسرے روز انہوں نے مجھے رات کو فون کیا اور کہا کہ وہ لبرٹی مارکیٹ کے قریب ہیں۔ اُس وقت وہ غالبًا نجم سیٹھی کے گھر سے کھانا کھا کر نکل رہے تھے۔ میں فوراً لبرٹی پہنچ گیا۔ وہ گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔ میں گاڑی میں ہی جوس لے آیا۔ انہوں نے پینے سے انکار کر دیا ۔

اور کہا کہ

“سیر کریساں سرگودھا دی” اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ مجھے ایک بال پوائنٹ دیا جس پر غالبًا ہندوستان ٹائمز لکھا ہوا تھا مگر افسوس نہ انہوں نے میرے ساتھ سرگودھا کی سیر کی اور نہ ہی میں وہ بال پوائنٹ سنبھال کر رکھ سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).