یہ چوتھائی صدی کا قصہ ہے


محض 25 سالہ پرانی باتوں کو بیان کرتے ہوئے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے زمانے بیت گئے صدیاں گزر گئیں۔ کئی چہرے جو دن رات آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے تھے ایسے گم ہوئے کہ خوابوں میں بھی نہیں آتے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم گاؤں کی تازہ فضاء میں سانس لیتے تھے اور شہر کی آلودہ ہوا سے کوسوں دور تھے۔ لگ بھگ اسی موسم میں دن کو حبس اور رات کو ٹھنڈ بڑھ جایا کرتی تھی۔ جو صبح شہر میں صرف بوقتِ سفر ہی میسّر آتی ہے ہم روزانہ ایسی ہی سحر میں دن کا آغاز کیا کرتے۔ ناشتہ نہایت سادہ جو کہ پراٹھا دہی اور چائے پر مشتمل ہوتا، ہم صحن ہی میں سب بہن بھائی مل کے کیا کرتے تھے۔ دھی نہ جمنے کی صورت میں گنواڈیوں(پڑوسیوں) سے بے جھجھک مانگ لیا کرتے۔ اُس دہی کی خوشبو سونگھے بھی عرصہ ہوا، شاید وہ خوشبو دہی لگانے والے اس ماں کے ہاتھوں کی تھی۔ صبح ہوتے ہی گاؤں کی کچی گلیوں میں چہل پہل بڑھ جاتی۔ مجھے آج بھی کھیتوں کی طرف جاتے بیلوں کے گلے سے باندھی گھنٹیوں کی جھنکار یاد ہے اور وہ للکار بھی ہٹ آ ہٹ آ ( اِدھر اس طرف یا سیدھا چلو جانوروں کو ہانکتے وقت کی صدا )۔

اُن دِنوں گھروں میں نلکے ( زمین سے پانی کے حصول کے لیے ) بہت کم ہوا کرتے تھے پانی بھرنے عورتیں کھیتوں میں موجود کنوؤں کا رُخ کرتیں، دو گھڑے اٹھانا عام سی بات اور تین گھڑے اٹھانا مہارت کا کام سمجھا جاتا۔ ہم دونوں بہن بھائی امی کے ساتھ مسجد کے کنوؤے سے پانی بھر کے لاتے، بوکا تو میں بھی کنوئیں میں لٹکا کے واپس کھینچ لیتا تھا۔ رات میں ماموں کے گھر لالٹین کے سہارے سفر ہوتا لالٹین ہاتھ میں جبکہ مجھے کندھے پے بٹھایا جاتا شاید یہی سب سے محفوظ ترین جگہ تھی۔ زندگی کا بوجھ تب محسوس ہوا جب اُسی کندھے کو جس پہ بیٹھ کر میں سفر کرتا تھا خود اپنے کندھوں پر اٹھایا۔

گاؤں کے بیچ و بیچ ایک مزار ہے ساتھ منسلک مسجد میں محفلِ میلاد منعقد ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دن، رات کو عشاء کے بعد محفلِ نعت منعقد تھی میں اور میرا کزن دوپہر کو مزار کے احاطے میں پہنچے وہاں خشک دیے دیکھ کر اظہارِ افسوس کے بعد فیصلہ کیا کہ آج سارے دیے جلانے ہیں۔ تیل کی مختلف اقسام سے ناواقفیت تھی اس لئے ذہن میں تھا کہ آگ ہمیشہ مٹی کے تیل سے جلتی ہے جو ہم لالٹین میں استعمال کرتے ہیں۔ گھر سے لالٹین چرا کر نیک کام کا آغاز کیا تمام دیے مٹّی کے تیل سے بھرنے کے بعد ماچس سے آگ سلگائی اور باری باری تمام دیے روشن کیے۔ آہستہ آہستہ روشنی کے دھوئیں میناروں تک پہنچ گئے ہم نے آگ بجھانے کی پوری کوشش کی لیکن ڈر کے مارے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ عشاء کے وقت محفلِ نعت میں جانا بھی ضروری تھا کیوں کہ گاؤں کے سب سے ماہر حلوائی نے حلوہ تیار کر رکھا تھا۔ ہم ڈرتے ڈرتے مسجد میں داخل ہوئے اس وقت مولوی صاحب کی تقریر جاری تھی مولوی صاحب کہنے لگے ”آج کُچھ وہابیوں نے مزار میں آگ لگانے کی کوشش کی جسے بروقت محلّے والوں نے پہنچ کر بجھایا میں ان کو بتانا چاہتا ہُوں یہ مزار تم وہابی ایسے ختم نہیں کر سکتے“ اس کے بعد مجھے یاد ہے سب سے اونچی آواز میں سبحان اللہ ہم دونوں نے کہا تھا۔ ہم حلوہ کھاتے ہوئے ہنستے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ نجانے یہ وہابی کون ہوتے ہیں۔

ایک امّاں جی ہمارے گھر آتی تھیں جنہوں نے بہت موٹا چشمہ پہنا ہوتا اکثر جب وہ سو جاتیں ہم اُنکے چشمے کو تیز دُھوپ میں لے جا کر اُس سے کاغذ کو جلایا کرتے، یہ مشکل کام ہم ماہر لڑکے ہی کرتے کہ چشمے کو اُوپر اٹھا کر روشنی کی کرنوں سے ہی کاغذ کا جلنا ممکن تھا۔ ہم اسے جادو کہتے۔

اُن امّاں جی کے ابّا بچپن میں ہی فوت ہوگئے اور ان کے شوہر بھی جوانی میں فوت ہوئے یُوں اُنکا بچپن یتیمی اور جوانی بیوہ کے روپ میں گزری۔ اُنکے بڑے بیٹے اور بہو بھی جوانی ہی میں زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ یُوں انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ابّا کے سائے کے بغیر پھر اپنے بچوں کو شوہر کے سائے کے بغیر اور پھر اپنی پوتی پوتوں کو بیٹے کے سائے کے بغیر پالا۔ میں نے اُن جیسی باہمت خاتون اپنی زندگی میں آج تک نہیں دیکھی جنہوں نے اپنی تین نسلیں پالیں۔ اُن کے چہرے پر جھریاں نمایاں تھیں لیکن کسی غم و کرب کا نشاں تک نہ تھا۔ گاؤں میں اُنکی مثال کُچھ یُوں دی جاتی کہ اگر غم سے کوئی مرتا تو یہ امّاں جی مر چُکی ہوتیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا تھا ان کو آخرسکوں کب ملے گا شاید جب ان کے پوتے بڑے ہوں گے۔ انہوں نے طویل عمر پائی اور اپنے پوتوں کو بڑے ہوتے اور برسرِ روزگار آتے دیکھا۔ پھر اک دن گاؤں سے اطلاع آئی اور میں وہاں پہنچا تو امّاں جی کو قبر میں اُتار رہے تھے میں نے سوچا بلآخر آج امّاں جی کو حقیقی سکوں مل ہی گیا۔ ہم اِس دنیا میں اُس سکون کے متلاشی ہیں جس کی کوئی دوکاں یہاں ہے ہی نہیں۔

شب برات کو مغرب کے بعد ہم پٹاخوں اورگولوں سے فرشتوں کا استقبال کرتے کافی ضد اور لڑائی کے بعد گھر سے کُچھ پیسے ملتے جن سے ہم ماچس پٹاخے، چوہے (چھوٹے پٹاخے)، اور پھلجھڑیاں خریدتے۔ پھلجھڑی ایک لوہے کی باریک تار تھی جس پر سفید چمکیلا بارود لپٹا ہوتا، اُسے آگ لگتے ہی کئی ستارے نمودار ہوتے اور رفتہ رفتہ دھوئیں میں تبدیل ہو کر خود میں ہی جذب ہو جاتے اُس پھلجھڑی کی تار کی حدت بہت دیر بعد بھی اُنگلیوں پر محسوس ہوتی۔

یادوں کا سلسلہ بھی بارش کی طرح ہے ایک ختم ہوتا ہے تو اک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
نجانے کتنے ہی خوبصورت چہرے خاک نشین ہوئے۔ اب تو آنکھوں میں اُنکی رمک بھی باقی نہیں۔
یادوں کے اِس غُبار سے الفاظ چننا، سمندر سے موتی چننے کے مترادف ہے۔
تختی پر کچی پنسل سے لکھا ہوا مٹانا تو ممکن تھا لیکن ہم نے قلم دوات سے الفاظ کو وہ پختگی بخشی جسے اب مٹّی ہی مٹا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).