صدر ایردوان کی حکمت


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

پہلی جنگ عظیم کے بعد جب یہود و نصاری کی سازش کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کو ترک جمہوریہ نے ختم کر دیا تو مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ گو کہ فلسطین اس سے پانچ دس سال پہلے ہی صلیبیوں کے قبضے میں جا چکا تھا، مگر عثمانی خلیفہ کی ہیبت اتنی تھی کہ تمام تر خواہش کے باوجود اسرائیل نہ بنایا جا سکا۔ عربوں کی بغاوت کے باعث جب ترک جنگ ہارے تو 1920 میں فلسطین کو برطانوی مینڈیٹ میں دے دیا گیا۔ جب 1948 میں اسرائیل قائم ہوا تو مئی 1949 میں اسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا، مگر اس سے دو مہینے پہلے ہی ترکی وہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا۔ شاید ترکوں کا خیال یہی ہو گا کہ عربوں نے خلافت سے غداری کی ہے، اس کی سزا خود ہی بھگتیں۔

ایسے میں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات نہایت دوستانہ اور قریبی رہے، مگر پھر جناب سید رجب طیب ایردوان ترکی کے حکمران بنے۔ وہ اتنے اچھے مسلمان اور حکمران ہیں کہ پاکستان کی صالح ترین جماعت اسلامی نے کبھی بھِی اپنی انتخابی کامیابی کی مثال دینی ہو تو یہی کہتی ہے کہ کیا ہوا اگر ہم منصورے میں کونسلر کا انتخاب ہار گئے، ادھر ترکی میں جماعت کی سید ایردوان کی حکومت دیکھیں۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی کی دوسری بہن جماعت اخوان المسلمون جب مصر میں حکمران بنی تو ایردوان صاحب نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ مصر کے لیے بھی ترکی کی طرح ہی ایک سیکولر آئین بنائیں، مگر اخوان اس پر مائنڈ کر گئے اور سید ایردوان کے خوب لتے لیے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی یہ خوب واضح کر چکی ہے کہ سیکولر ازم لادینیت ہے، اور ایسے میں اگر سید ایردوان سیکولر ازم کے اتنے بڑے حامی ہیں، تو اس میں ضرور کوئی بڑی حکمت ہی ہو گی جو کہ فی الحال ہماری فہم سے باہر ہے مگر آپ کا کوئی نزدیکی صالح جماعتی بھائی آپ پر بھی اس حکمت کو واضح کر سکتا ہے۔

\"netanyaho-erdogan\"

جب غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر ظالم صیہونیوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو جنوری 2009 میں ڈیووس میں ان کا ملعون صدر شمعون پیریز اپنی بدقسمتی سے سید ایردوان کے سامنے آ گیا۔ سید ایردوان نے ساری دنیا کے سربراہان اور ٹی وی کیمروں کے سامنے اس کی جو بے عزتی کی ہے، اسرائیل آج تک اس پر تڑپ رہا ہے۔ سید ایردوان نے سیدھا اس کے منہ پر اسے فلسطینی بچوں کا ایک مشاق قاتل کہہ دیا۔ اس پر میزبان نے کہا کہ بس اب بات ختم کر دیں، آگے دوسرے پروگرام کا وقت ہو رہا ہے، تو سید ایردوان اتنے ناراض ہوئے کہ بائیکاٹ کر کے ہال سے اٹھے اور سیدھے اپنے جہاز میں بیٹھ کر ترکی پہنچ گئے جہاں عوام نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔

اس کے ایک برس بعد ہی غزہ فلوٹیلا کا واقعہ پیش آ گیا جس میں شامل ترک جہاز ماوی مارمرا پر اسرائیلی کمانڈو اترے اور نو ترکوں کو شہید کر ڈالا۔ اس پر سید ایردوان نے اسرائیل سے دفاعی تعلقات منجمد کر دیے اور ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کر دیں اور گویا یہ کہا کہ اب تک جو دفاعی تعاون کرتے رہے ہیں، وہ ایک طرف، مگر اب معاملہ دوسرا ہے کہ ترک مرے ہیں، عرب نہیں۔ باقی بھی کافی گرمی سردی ہوئی۔ سید ایردوان نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور سیاسی دوستی اسی وقت کریں گے جب اسرائیل تین شرائط منظور کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ حملے کی معافی مانگے۔ دوسری یہ کہ مرنے والے ترکوں کا خون بہا ادا کرے۔ تیسری یہ کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دی جائے۔

\"Mavi_Marmara_side\"

اسرائیل نے ہٹ دھرمی سے کام لیا۔ اس پر سید ایردوان نے کہا کہ ترکی اپنے پلان بی پر عمل کرے گا۔ ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور سفارتی تعلقات کو محدود کر دیا۔ دفاعی تعاون محدود کر دیا۔ اور بتایا کہ اگلے فریڈم فلوٹیلا کی حفاظت کی خاطر ترک جنگی جہاز جائیں گے۔ اسرائیل کو سمندر سے گیس نکالنے سے روکنے کا پختہ ارادہ بھی ظاہر کیا۔ قبرص کے قریب تیل تلاش کرنے والے ایک ترک جہاز کے اوپر اسرائیلی جنگی جہازوں نے پروازیں کیں اور قبرصی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، مگر جب سید ایردوان کے جنگی جہاز ان کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اڑے تو اسرائیلی دم دبا کر بھاگ گئے۔ سید ایردوان نے کئی عرب سفیروں کو یہ بات بتائی ہے مگر اسرائیلی تو جھوٹ کے بادشاہ ہیں، مانتے ہی نہیں کہ کبھِی یہ واقعہ پیش آیا۔ ترک فضائی جہازوں میں دوست اور دشمن کی شناخت کرنے والے نظام کو تبدیل کر کے اسرائیلی طیاروں کو دوست کی بجائے دشمن کے طور پر شناخت کیا جانے لگا۔

لیکن سید ایردوان کی ناراضگی سے اسرائیل کی جان عذاب میں تھی۔ تین سال بعد شدید امریکی دباؤ پر اسرائیل نے گھٹنے ٹیک دیے اور مارچ 2013 میں نتن یاہو نے سید ایردوان کو فون کر کے معذرت کر لی اور بہانہ کیا کہ ترک غلط فہمی کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔ غالباً انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ گولی لگنے سے بندہ نہیں مرتا، یا پھر یہ کہ جسے گولی مار رہے ہیں وہ ترک نہیں ہے۔ دشمن کو پیروں میں گرے دیکھ کر وسیع القلب اور عالی ظرف سید ایردوان نے معذرت قبول کی اور اسرائیل کو سچے دل سے معاف کر دیا۔ ترک خون بہا کے طور پر تین کروڑ ڈالر مانگ رہے تھے، اور اسرائیل بضد تھا کہ صرف ڈیڑھ کروڑ دے گا، مگر اب مجبور ہو کر دو کروڑ تک کی آفر کر چکا ہے۔ پر یہ صیہونی اتنے شریر ہیں کہ بس مذاکرات ہی کیے جا رہے ہیں اور جیب ڈھیلی نہیں کر رہے ہیں اور اسرائیل دو کروڑ بھی نہیں دے رہا ہے۔

تیسری شرط پر بھی اسرائیلی شرارت پر اترے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ غزہ کا محاصرہ کسی صورت ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب سید ایردوان محض ان جھوٹوں کو ان کے گھر تک چھوڑنے کے لیے اس بات پر آ گئے ہیں کہ محاصر مکمل طور پر ختم کرنے کی بجائے صرف ترکی کو اجازت دے دی جائے کہ غزہ میں صرف ترکی کو ہی کچھ کھانا پانی اور تیل وغیرہ پہنچانے کی اجازت دے دی جائے، مگر وہ مکار تو حرفوں کے بنے ہوئے ہیں، مانتے ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ سید ایردوان کی مدد کی وجہ سے کہیں وہاں میزائیل وغیرہ نہ پہنچ جائیں جو کہ اگلی جنگ میں حماس راکٹ کی بجائے استعمال کرے گی۔

ان ملعون اسرائیلیوں کو یہ غلط فہمی بھِی ہو گئی ہے کہ سید ایردوان کو اپنے ممنون حسین ٹائپ موجودہ صدارتی اختیارات میں اضافے کے لیے آئین میں تبدیلی کی خاطر کیے جانے والے ممکنہ ریفرینڈم میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اور انہیں جوش و ولولے سے بھرنے کے لیے غزہ کا محاصرہ نرم کر دینے کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ خواہ سید ایردوان صرف صدر ہی رہیں، حکومت تو انہی کا منتخب کردہ نمائندہ چلائے گا، تو خواہ صدر کو اختیارات ملیں یا نہ ملیں، حکومت تو انہی کی ہو گی۔ یہ آئینی تبدیلی تو وہ بس دشمنوں پر اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے کروانا چاہتے ہیں۔

اسرائیل نے یہ غلط اندازہ بھی لگایا ہے کہ روسی جہاز گرانے کی جرات کرنے کے بعد جو روسی پابندیاں ترکی پر لگی ہیں، اس سے سید ایردوان گھبرا گئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ روسی سیاح ترکی میں سب سے زیادہ تعداد میں آتے تھے اور اب سیاحتی سیکٹر مندے میں جا رہا ہے، اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ترکی اب پھل سبزیوں اور تعمیراتی شعبے کی ایکسپورٹ کی ایک بڑی مارکیٹ سے محروم ہو چکا ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ ترکی اپنی پچاس فیصد گیس روس سے لیتا ہے جو کہ بند کر دی گئی تو ترکی ایک مزید بڑے بحران کا شکار ہو جائے گا، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ اسرائیلی گیس لینے پر مجبور ہے۔ سید ایردوان چاہیں تو پاکستان کی طرح وہ بھی قطر سے گیس کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی یہ شیطانی بھی کر رہے ہیں کہ یورپ کو گیس کی برآمد کے لیے اب ترکی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جمہوریہ قبرص اور یونان سے تعلقات بڑھا رہے ہیں اور ترکی سے نظریں پھیرتے دکھائی دے رہے ہیں، مگر ایک دن وہ اپنی کوتاہ نظری پر پچھتائیں گے۔

\"211853Image1\"

ادھر ملک کے اندر بھی اندھیر مچا ہوا ہے۔ کرد شرارت پر اترے ہوئے تھے۔ کہتے تھے کہ سید ایردوان داعش کی حمایت بند کریں اور سرحد کے پار داعش کی جانب سے کردوں کے قتل عام میں شریک نہ ہوں، بلکہ وہاں کردوں پر بمباری بھی نہ کریں۔ ایسی غدارانہ خواہش پر سید ایردوان نے کردوں سے امن سمجھوتہ پس پشت ڈال دیا اور ان کی خوب گوشمالی کی۔ پی کے کے نامی کرد دہشت گرد تنظیم نے ایک طرف ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا، اور دوسری طرف احسان فراموش داعش نے سید ایردوان کی کمر میں خنجر گھونپ دیا اور شام اور عراق کی بجائے ترکی میں ہی بم پھاڑنے شروع کر دیے، مگر سید ایردوان نے بھی خوب جواب دیا۔

\"turkey-parliament.jpg_1718483346\"

انہوں نے ملک میں آئینی ترمیم کر دی ہے جس کی رو سے اراکین پارلیمان پر مقدمے چلانے سے روکے جانے کی آئینی چھتری ہٹا لی گئی ہے۔ اب پارلیمان میں موجود کرد نمائندے رو پیٹ رہے ہیں کہ یہ ان کے 138 اراکین پر سنگین نوعیت کے مقدمات چلانے کی خاطر کیا گیا ہے۔ اگر وہ پہلے عقل سے کام لیتے تو سید ایردوان کی دشمنی مول نہ لیتے۔

ان کو ان غدار ترک صحافیوں کے حشر سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا جو سید ایردوان کے خلاف لکھتے تھے اور اب جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ کیا انہیں وہ اخبارات دکھائی نہیں دیتے جو حکومت کی تائید نہیں کرتے تھے اور اب ان کو حکومت نے ضبط کر لیا ہے اور اپنے نمائندے ان کے سروں پر بٹھا دیے ہیں۔ وہ صدر سید ایردوان کا ترکی ہے، کوئی صدر ممنون حسین کا پاکستان نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے حکمران کے خلاف کچھ بھی اناپ شناپ لکھنا شروع کر دے اور عدالت میں جا کر ثبوت دینے کو بھی تیار ہو۔ وہاں ایسوں کو عدالت میں اپنی ذاتی صفائی کے لیے ثبوت دینے پڑتے ہیں۔

\"fighting-politicians\"

وہ ممبران پارلیمنٹ اگر پی کے کے کی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں کی مانند کرد ہیں، انہی کی مانند کرد زبان بولتے ہیں، انہی کی طرح کرد علاقے میں رہتے ہیں، اور انہی کی مانند شکل و صورت رکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ وہ پی کے کے کی دہشت گرد تنظیم کے ممبر یا کم از کم ہمدرد تو ضرور ہیں اور ہتھیار نہیں تو انہیں چندہ یا قربانی کی کھالیں تو ضرور دیتے ہیں۔ وہ ایسے کام کریں گے تو پھر سید ایردوان جیسے دانا و بیان حکمران کی عقابی نگاہوں سے کہاں بچ پائیں گے۔ سید ایردوان تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں اور غدار کو پہچاننے میں منٹ بھی نہیں لگاتے ہیں۔

اس آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا تھا کہ بحث مباحثہ ہو کہ انہیں اندر کر دیا جائے یا کیا سلوک کیا جائے۔ اس پر وہ کرد بحث مباحثہ کرنے کی بجائے مار پیٹ پر اتر آئے۔ کبھی کسے سے گھونسے پر اپنا پیٹ مارا اور کبھی کسی کے پنجے میں اپنا منہ دے مارا۔ مگر سید ایردوان کے مجاہدین نے ان کی قرار واقعی گوشمالی کی۔ ایک طرف وہ محب وطن ممبران کے ہاتھوں پٹتے رہے اور دوسری طرف آئینی ترمیم منظور ہوتی رہی۔ سچ ہے، لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔

اب تو آپ بھی ہماری طرح مان جائیں گے کہ جماعت اسلامی اس اے کے پی کی حکومت کو اپنی حکومت بجا طور پر کہتی ہے۔ مکالمے کے یہ اطوار خوب جانے پہچانے سے ہیں۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments