‏حج کرنے والوں کی تعداد میں پاکستان کا دوسرا نمبر اور ایمانداری میں


حج کرنے والوں کی تعداد میں پاکستان کا دوسرا نمبر اور ایمانداری میں 117واں نمبر؟

سوال یہ لا کھڑا کیا گیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمارامعاشرہ اخلاقی گراوٹ سے دوچار ہے یعنی یہی حاجی حضرات اسلام کے بنیادی صفات یعنی امانت ودیانت کے تقاضوں کو پامال کررہےہوتےہیں۔ “ نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی”۔

یہ بہت بنیادی بات ہے جو غور و فکر کا متقاضی ہے۔ بنیادی طور پہ یہ مروجہ تصور دین ہے جس کے اثرات ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو کثیر تعداد مل رہے ہیں۔ اس حوالے سے دو قسم کے تصوارات پائے جاتے ہیں جس کی بنیاد دراصل ایک ہی ہے اور وہ ہے دین و دنیا کی تفریق۔

اوّل : ایک نظریہ سیکولرازم کا ہے کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہےجس کا انحصار اس کی مرضی پہ ہے مگر دنیا کے تمام تر اجتماعی معاملات کسی مذہب اور الہامی ہدایات اور تعلیمات کے قطعا محتاج نہیں ہے۔
دوم: دوسری فکر روایت پسندی کا ہے یعنی مذہب کا دائرہ ان کے نزدیک بہت محدود ہے۔

بالکل واضح نظر آ رہا ہے کہ ان کی ساری توجہ خاص مراسم کی ادائیگی اور عبادت کی بہت محدود تصور پہ ہے۔ کہیں زور خانقاہیت و مروجہ تصوف پہ ہے، کہیں فضائل پر اور کہیں مذہب کی اشاعت پر۔ خیال یہ پختہ ترہوتا ہے کہ چند امور کی انجام دہی سے انسان ایک مقام کو پالیتاہے۔

ان تصورات نے عبادات کی روح کو مجروح کررکھا ہے۔ عبادات کی ادائیگی محض رسوم کی طرح ادائیگی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اسی لئے تو انسانی زندگی پہ اس کے اثرات نہیں ہے۔

صرف دو مثالیں۔

1۔ پانچوں نمازوں میں ہم پڑھتے ہیں”ایاک نعبد وویاک نستعین”یعنی اقرار اور عہد ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا نہ کسی کی درپہ سجدہ ریزی ہوگی اور نہ کسی اور سے کچھ مانگنا ہوگا۔ مگر عملا یہی لوگ درباروں کو سجدے بھی کرتے ہیں اور ان سے منتیں بھی مانگتے ہیں۔ (دنیاوی خداؤں کےسامنے ماتھا ٹیکنا تو ایک اور پہلو ہے)

2۔ روازانہ نماز عشاء میں ہم وعدہ اور عزم کرتے ہیں کہ “ونخلع ونترک من یفجرک”ی عنی اللہ تعالی کے نافرمان لوگوں کا ساتھ نہیں دینا ہے مگرعملا اکثریت یہی نمازی حضرات ظالم، جابر، بدکار اورفاسق لوگوں کا نہ صرف ساتھ دیتے ہیں بلکہ انھیں ہرقسم کی تقویت بھی بہم پہنچا دیتے ہیں۔ عزم ہوتا ہے کہ طاغوت سے بغاوت ہوگی مگرسلام پھیرتے ہی طاغوت کا دست وبازو اور محافظین کے صفوں میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ (طاغوتی نظام کا پرچار اور تحفظ توایک اور پہلو ہے)

خلاصہ: پوری زندگی کو اللہ تعالی اور اس کے رسول ص کےاحکامات، تعلیمات اور ہدایات کے مطابق بسر کرنا اصل عبادت ہے اور ارکان اسلام کی ادائیگی اسی بڑی عبادت کی آبیاری، پختگی، نکھاراورحفاظت کے خاطر ہیں پوری زندگی کا سمت اگر واضح اور درست ہے تو تربیت موثر ہوگی یعنی ممد ومعاون ہوگی۔

کہنا یہ ہے کہ عبادت کی تاثیر کے لئے دین کا بنیادی تصور درست کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے اصل اور جامع تصورکوعام کیاجائے کہ”اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے”یَآ اَیُّ۔ ہَا الَّ۔ ذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِى السِّلْمِ کَآفَّ۔ ةً ۖوَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ اِنَّھٝ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ اے ایمان والو! اسلام میں سارے کے سارے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کےقدموں کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے”اسی طرح عبادات کی روح، مقاصد اور بندگی رب کے تقاضوں سے معاشرے کو آگاہ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).