مولانا فضل الرحمن اور صدارت کی امیدواری


مولانا فضل الرحمان نے نواز لیگ کے ساتھ بالکل وہی کیا ہے جو غالب کے رازدان نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ پہلے مرزا غالب کا شہرہ آفاق اور ہردل عزیز شعر پڑھ لیں۔
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

صدارتی امیدوار کے انتخاب کے حوالے سے جب ن لیگ اور پی پی میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تو سیاست کی پچ پر چاروں طرف کھل کر کھیلنے والے تجربہ کار کھلاڑی مولانا فضل الرحمان میدان میں اترے۔ ان کے تعلقات دونوں جماعتوں سے بڑے گہرے، بے تکلف اور دوستانہ ہیں۔ انہیں سیاسی حرکیات سے خوب آگاہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ سیاست میں اقتدار پر نظر رکھ کے اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی اختلاف کو سیاست کی حد تک ہی رکھا اور کبھی اسے حق و باطل کا معرکہ بنا کر نہیں لڑا۔

اگر غیر جانبداری اور دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو مولانا پاکستان کی سیاست میں شاید سب سے کامیاب سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی سیاست کی مگر دوسرے سیاستدانوں سے انتہاپسندانہ رویہ اپنا کر تعلقات خراب نہیں کیے۔ سیاست میں یہ حقیقت پسندانہ اور متوازن رجحان ہے جو انہوں نے دیا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ان کے ثالث اور پل بن کر دونوں پارٹیوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ان کے نقطہ نظر میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی۔ پی پی نے بلکہ زرداری صاحب نے جب کسی“ مصلحت ” کے تحت اعتزاز احسن کا نام بطور صدارتی امیدوار پیش کیا تو عین توقع کے مطابق ن لیگ نے اسے مسترد کر دیا۔ شاید زرداری چاہتے بھی یہی تھے ورنہ پی پی میں رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور قمر الزمان کائرہ کی شکل میں اعتزاز سے زیادہ قدآور اور غیر متنازعہ لیڈر موجودتھے۔ مگر جناب زرداری کو اعتزاز احسن ہی بھائے اور ایسے بھائے کہ وہ پوری پارٹی سمیت ان کے نام پر ڈٹ گئے۔

ادھر ن لیگ سٹپٹا کررہ گئی۔ سینیٹ کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد یہ تیسرا موقع ہے کہ جب جناب زرداری ن لیگ کو ناکوں چنے چبوانے پر تلے بیٹھے ہیں جناب اعتزازاحسن کے بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کچھ نازیبا بیانات کی وجہ سے ن لیگ قطعی طور پر اعتزاز کو ووٹ نہیں دینا چاہتی۔ پی پی کا مؤقف اس حوالے سے یہ ہے کہ جب نام زبان زد عام ہو گیا تو وہ اسے کسی صورت واپس نہیں لیں گے اور نہ ہی ن لیگ کے مطالبے کے مطابق اعتزاز احسن معافی مانگیں گے۔

ن لیگ سمیت بے شمار سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ زرداری صاحب نے اعتزاز کی اڑچن جان بوجھ کر رکھی ہے تاکہ ن لیگ کو الگ تھلگ رکھا جائے اور حکمران پارٹی کو متحدہ اپوزیشن سے محفوظ رکھ کر اپنا الو سیدھا کیا جائے۔ سینیٹ کے چئیرمین کے انتخاب کے وقت سے پی ٹی آئی پی پی میں کسی کے اشارے پر ایک خاموش مفاہمت چل تو رہی ہے۔ وہ اپوزیشن جسے حکومت کے خلاف متحد ہونا تھا، آپس میں ہی دست و گریبان ہو گئی ہے اور نئے پاکستان کے ”معمار“، ” مزدور“ اور ”ٹھیکیدار“ یہ سب کچھ دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ عجیب گھڑمس مچا ہوا ہے۔ ن لیگ زرداری پر مفاہمت اور ڈیل کا الزام لگا رہی ہے۔ دوسری طرف پی پی ن لیگ کو ایک اور این آر او کا طعنہ دے رہی ہے اور مجھے تو مولانا کا اس حوالے سے کردار بھی دال میں کچھ کالا کے مصداق مشکوک ہی لگ رہاہے کیونکہ وہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔

کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ جناب عارف علوی شاید اب پچھتا رہے ہوں کہ انہوں نے ناحق جہاز والے جہانگیر ترین کو پاکستان آنے کی زحمت دی۔ بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا صاحب اپنے دیرینہ دوست جناب آصف زرداری کو اپنی حمایت کے لیے کیسے قائل کر پاتے ہیں۔ ہمیں تو صدارتی الیکشن بھی حسب توقع وزیر اعظم کے انتخاب کی طرح یک طرفہ ہی نظر آ رہا ہے۔ کہانی کاروں نے کہانی کچھ اس انداز سے الجھائی ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ساقی نے واقعی بہت کچھ شراب میں ملا دیا ہے ورنہ صدارت کا جام مولانا کے ہاتھ تک کیسے آ سکتا تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).