سلیم صافی پر نواز شریف کی ترجمانی کا الزام


گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پہ معروف صحافی سلیم صافی کے خلاف جو طوفانِ بد تمیزی برپا ہے، اس کی و جہ وہ خبر ہے، جو انھوں نے نامساعد حالات اور غلط وقت پر بریک کی۔ صحافت اور صحافی دونوں کو غیر جانب دار ہونا چاہیے؛ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں، مگر ہم میں سے مانتا کوئی نہیں۔ خبر لینے کے لیے خبر دینا، بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ’آ بیل مجھے مار‘۔

سلیم صافی نے غلط وقت پر خبر بریک کر کے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ خبر کے صحیح یا غلط ہونے پر بعد میں بات کی جائے گی، فی الحال میرا مدعا یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب نواز شریف اڈیالہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں، یہ خبر دینے کا مقصد کیا تھا؟ فی الوقت تو اس خبر نے نواز شریف کا کوئی بھلا نہیں کیا، اُلٹا سلیم صافی کی نیک نامی پر حرف ضرور آیا ہے۔

ہر طرف سے سلیم صافی پر نواز شریف کا ترجمان ہونے اور لفافہ صحافی ہونے کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ میرا سلیم صافی سے میل جول نہیں ہے اور نہ ہی بطور صحافی میں ان کے کام سے نا خوش ہوں۔ وہ بہت سینیئر اور تجربہ کار صحافی ہیں لیکن جب مجھ جیسے نا تجربہ کار بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف کے اخراجات والی بات عوام تک پہنچانے کا نہ تو یہ صحیح وقت تھا اور نہ موقع تو سلیم صافی جیسے تجربہ کار کو کیا اس بات کا اندازہ نہیں تھا، کہ اس خبر کے بریک ہونے کے بعد وہ کن مشکلات میں گھر سکتے ہیں؟ انھوں نے مین اسٹریم میڈیا پہ جن چیکوں کی بات کی اور یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود چیک منگوا کر، دیکھ کر تسلی کی ہے۔ ان چیکوں کی کیا حیثیت ہے؟

احتساب عدالت کے باہر خود نواز شریف نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے ان چیکوں کا ذکر کرنا ضروری خیال کیا کہ وہ چیک میں نے خود بنوائے تھے۔ اگر میاں صاحب کی بات کو دیکھا جائے، تو اس میں وزن نہ ہونے کے برابر ہے؛ کیوں کہ گزشتہ ایک سال سے وہ پاناما کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے، تو کیا سزا سے پہلے جب ان سے اثاثوں کے بارے میں تفتیش ہو رہی تھی، تب انھوں نے چیکوں کی یہ وضاحت دینا ضروری نہیں جانی اور نہ ہی وہ چیک ڈِپازٹ کرانا ضروری خیال کیا؟

جب تک ادائیگی نہ ہو تو چیک چاہے آپ اربوں روپے کا لکھ دیں کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا یہ دکھاوے کے لیے تھا کہ وہ چیک وزیر اعظم ہاوس میں رکھ دیے جائیں، تا کہ آنے والی حکومت کے ہاتھ، آپ کے وہ چیک لگیں اور عوام میں آپ کی واہ وا ہو، کہ ذاتی مفاد کے لیے عوام کا پیسا آپ نے کبھی خرچ نہیں کیا۔

میری رائے کے مطابق سلیم صافی کو یہ خبر اس وقت بریک کرنی چاہیے تھی، جب نواز شریف پاناما کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، اس وقت یہ خبر نواز شریف کے لیے سخت گرمی اور حبس کے موسم میں بارش کے بعد ٹھنڈی ہوا چلنے کے مترادف ہوتی۔ مسلم لیگ (ن) کو اضافی نشستیں ملنے کا فائدہ ہوتا اور آج شاید پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی۔ اس لیے خبر کو صحیح وقت پر بریک کرنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ خبر کا مستند اور سچا ہونا۔ آدھی خبر دینا خبر کے قتل کے مترادف ہے۔ اگر سلیم صافی کو وزیر اعظم عمران خان کے پرائم منسٹر ہاوس میں نہ رہنے اور خرچ اپنی جیب سے ادا کرنے کے اعلان کے بعد احساس ہوا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دریا دلی کو عوام کے سامنے لایا جائے، یہ بتایا جائے کہ نواز شریف نیکی کے معاملے میں بہت حساس طبیعت کے ہیں اور وہ یہ قطعا گوارا نہیں کرتے کہ داہنے ہاتھ سے نیکی کرنے کے بعد بایں ہاتھ کو اس کی بھنک بھی ہو، تو ان کی اس عاجزانہ طبیعت کا بھرم قائم رکھتے۔ اگر اُن کی نیکی عوام پر عیاں کرنے کا اتنا خبط سوار تھا، تو پورے وثوق اور ثبوتوں کے ساتھ عوام کی عدالت میں پیش ہوتے۔

مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں مبینہ طور پر صحافیوں کی خرید و فروخت اور اعلیٰ عہدوں تک رسائی ناقابل یقین حدتک عروج پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی صحافی کسی اقتدار کی کرسی پر براجمان جماعت کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی خبر بریک کرے، چاہے وہ مستند ہی کیوں نہ ہو، ہضم نہیں ہوتی۔ اُس جماعت کے حامی سوشل میڈیا کو مغلطات سے بھر دیتے ہیں۔ آپ کسی صحافی کی آرا سے اختلاف دلیل کے ساتھ کر سکتے ہیں، لیکن اپنی انا کی تسکین کے لیے کسی انسان کی ذات کی دھجیاں نہیں اڑا سکتے۔

سلیم صافی کی خبر سے لاکھ اختلاف سہی، مگر اِس طرح اُن کی ذات پر کیچڑ اچھالنا قطعا درست نہیں۔ اب ان پر جو مختلف سمتوں سے تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں، صحافی برادری ان کے سامنے سینہ سپر ہو رہی ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون کے حوالے سے نئے پاکستان کا یہ بھی ایک مثبت اشاریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).