کیا سردیوں میں پاکستان میں کرونا کیسز بڑھ سکتے ہیں؟


پاکستان میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہونے لگا ہے۔ اس اضافے کو روکنے کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت مختلف شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔

کرونا وائرس کی متوقع دوسری لہر سے متعلق اتوار کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان وائرس کے بدترین اثرات سے محفوظ رہا۔ لیکن خدشہ ہے کہ موسم سرما میں یہ وبا پھر سے سر اٹھا سکتی ہے۔ لہذٰا اس سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال یقینی بنائیں خاص کر دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ماسک لازمی پہنیں۔

آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر فیصل محمود کہتے ہیں کہ اس وقت جو کیسز سامنے آ رہے ہیں اس کی وجہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا ہے۔ موسم سرما کے آغاز سے قبل ہونے والا موسمی نزلہ اور کھانسی بھی کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

کرونا کے مریضوں میں اضافے کے بعد کراچی کے بعض علاقوں میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کرونا کے کیسز میں اضافے کی وجہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے۔

ان کے بقول لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وائرس اب بھی موجود ہے۔ لہٰذا میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دینے کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔

کیسز میں متوقع اضافے کے بعد کیا سندھ حکومت کسی نئی لاک ڈاؤن پالیسی پر غور کر رہی ہے؟ اس سوال پر مرتضیٰ وہاب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے متعلق حکومت سندھ خود کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔ جو بھی فیصلہ ہو گا وہ وفاق کی مشاورت سے ہو گا۔

آغا خان اسپتال کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کراچی میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے دس میں سے نو افراد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

یہ تحقیق کراچی کے ان علاقوں سے لیے جانے والے خون کے نمونوں پر مشتمل تھی جہاں کرونا وائرس کے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ کرونا وائرس کا شکار 90 سے 95 فی صد افراد ایسے تھے جن میں وائرس کی علامات ظاہر نہ ہو سکیں۔

آغا خان یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف انفیکشیس ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر سید فیصل محمود کے مطابق اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ آبادی میں کتنے لوگ کرونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل محمود نے بتایا کہ ایسی ریسرچ میں ایک مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ اگر کسی کو سر درد، جسم میں درد یا نزلہ ہو تو شاید آپ کو یاد نہ رہے کہ یہ علامات تھیں یا نہیں۔ اس لیے ان کے بقول یہ کہنا تھوڑا مشکل ہے کہ کیا واقعی 90 سے 95 فی صد افراد میں واقعی کوئی علامات تھیں یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب یہ تحقیق کی جا رہی تھی، اس وقت وائرس بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا اور لوگوں میں اس کا خوف تھا۔ تو اگر انہیں یہ وائرس ہوا بھی تو وہ بتانے سے ڈرتے تھے کہ انہیں یہ علامات رہی ہیں۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ کیسز میں تیزی سے اضافہ نظام صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج ضرور ثابت ہوگا۔ ان کے بقول یہ انفلوئنزا کا موسم بھی ہے جس میں ایسے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آئے گی جنہیں بخار، نزلہ، زکام اور کھانسی کی شکایت ہوگی۔ ایسی صورت میں کرونا وائرس میں فرق کرنے میں بہت دشواری ہو گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa