کام کی حقیقت، ذہن کی عادت اور بدھ مت کا بیان


ذہن جس چوراہے پر بیٹھا ہے، زندگی وہاں سے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ گزرتے رہنے میں مصروف ہے۔ پیر و جواں، مرد و زن، سب چل رہے ہیں۔ ہنگامۂ محشر ہے جو بپا ہے۔ چلنے والوں کے قدم خاموش ہیں مگر حرکت ایک سنائی دینے والی آواز کی غماز۔ سفر جاری ہے۔ ذہن کے چھوٹے سے پنجرے میں قید آزاد افکار کا سفر۔ خاموش لبوں پر موجود لا متناہی الفاظ کا سفر، جو بے آواز ہیں مگر کاغذ کے بدن پر اپنے نقوش چھوڑنے میں مصروف ہیں۔ جست جو کیا ہے؟ یہ سوال دو رُخا ہے۔ جست جو اپنے تئیں کس امر کا نام ہے اور پھر یہ کہ میری جست جو کیا ہے؟ تلاش کیسی ہے؟ کیا زندگی کی تلاش ہے یا تلاش خود میں زندگی ہے۔ زندگی تو ایک عادت ہے۔ ایک مسلسل بہتا جھرنا ہے جو بس بہتا رہتا ہے اوپر سے نیچے کے طرف۔ میری آنکھ اس حرکت کو دیکھتی ہے اورمیرا ذہن نت نئے معانی گھڑتا رہتا ہے۔ زندگی پر رنگ ہے اور معما ہے۔ زندگی شاید خیال ہے، اصل وہ ہے جو زندہ ہے۔ جو زندہ ہے وہ خوش ہے، غم گین ہے، آلسی یا مصروف ہے، چلتا ہے یا حالتِ سکوت میں ہے، توانا یا معذور ہے، وجود ہے۔ وجود زندہ ہے اور حالتِ حرکت میں ہے۔ ٹھہرتا نہیں ہے مگر یہ ساری حرکت کسی ایسی مقام کی طرف ہے جہاں یہ ٹھہر جائے۔ یہ کام ہو جائے، وہ کام ہو جائے۔ ”کام” اپنے طور پر ایک اشارہ ہے، وجود کی حرکت کا استعارہ ہے۔ میر نے کیا خوب کہا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس گارگہہ شیشہ گری کا۔

کام محرک ہے، حرکت ہے، ایک کل ہے جس کا کہ وجود ایک جزو ہے۔ ہر ذی روح حیات ”کام” کے کرنے میں مصروف ہے۔ کسی بھی نوعیت کا کام۔ کام آسان اور مشکل ہے، جائز و نا جائز ہے، اچھا اور برا ہے، اعلیٰ و ادنیٰ ہے۔ کام بے تحاشا چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ کام راستہ ہے اور منزل ہے۔ کام زبان و بیاں سے اور ادراک و اظہار کے مباحث سے لا تعلق ہے۔ کام ہوتا رہتا ہے، کیا جاتا ہے۔ کام کے محرکات مخفی بھی ہو سکتے ہیں اور واضح بھی، ارادی و غیر ارادی بھی۔ زندگی اور کام کی قدرِ مشترک نفسِ حرکت ہے۔ اسی لیے زندگی اور کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ زندگی کیاہے؟ اس سوال کا ہر عقلی جواب نا مکمل ہے، کیوں کہ زندگی کسی تجریدی عمل کے ہاتھ آنے سے مانع ہے۔ محقق زندگی کو ایک خاص سانچے میں، مدبر ایک خاص تصور میں باندھنے پر مصر ہے اور زندگی ان تمام تصوراتی جالوں سے نکلنے پر سرگرداں۔ زندگی صرف زندہ ہے اور جو زندہ ہے اس نفس کی ہر حرکت ایک نا سمجھ آنے والا مگر ہر وقت موجود کل ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی حسین ہے، کیوں کہ وجود حسین ہے۔ جیسا کہ وجود بد صورت ہے۔ میری رائے میں زندگی نہ تو حسین ہے نا ہی بد صورت۔ بلکہ جو ہے وہ موجود ہے۔ تو موجود حسین ہے یا بد صورت ہے یا ان قطبین کے درمیان حائل عالمِ برزخ ہے۔ تو موجود حسین بھی ہے اور بدصورت بھی یا شاید ان سب سے ماورا، بس جیے جاتے رہنے کی سعی ہے۔ زندگی کی اس حرکت کو یہ کپڑے زبان پہنا رہی ہے ۔ تو زبان اس تصویر عکس ہے، جو ہماری نظروں کے سامنے چل پھر رہی ہے ۔ ذہن کی مشکل ہی ہے کہ وہ ان تصاویر کو ایک باہمی ربط و ترتیت کے دائرے میں بند کرنا چاہتا ہے۔

اگلا سوال پھر یہ ہو گا کہ ربط و ترتیب پھر ذہن کی پیداوار ہے یا خارج میں موجود کوئی حقیقت؟ ہر موجود مرتب ہے۔ ہر ذرہ ایک خاص طرز کے نظریۂ ترتیب پر عمل پیرا ہے۔ دنیا کی سب سے چھوٹٰی اینٹ یعنی ایٹم تک کے ذرات ایک خاص ترتیب میں محرک ہیں۔ تو پھر حرکت کیا ایک ترتیبی سر گرمی ہے یا ایک جہانِ بے تر تیبی۔ یا مسئلہ یہ ہے کہ جو ذہن ان ذرات کے مطالعے پر مامور ہے، وہ اپنی جبلت کے زیرِ اثر ایک نظامِ ترتیب ان محرکات پر نافذ کرنے پر مجبور ہے۔ عالمِ کثرت میں موجود اجسامِ فلکی ہوں یا ذراتِ مخفی، سب محرک ہیں۔ حرکت کو انجام پانے کے لیے خاص طرز کی جگہ چاہیے۔ ایک خالی جگہ جس میں وہ چل پھر سکے۔ تو کہا جاتا ہے کہ چاہے فلکی ستارے ہوں یا الیکٹران و نیوٹران سب ایک بے تحاشا پھیلی ہوئی کائنات میں موجود لامتناہی خلا میں محرک ہیں۔ اور یہی خلا در اصل حرکتِ موجود کو ممکن بناتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ خلا وجود کو مکمل کرتا ہے۔ ویسے ہی جیسے بدھ مت میں موجود خود کو خالی کرنے کا تصور انسان کی آگہی کی طرف پہلا زینہ فراہم کرتا ہے۔ بدھ مت دراصل خود کو خالی کرنے پر انحصار کرتا ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ یہی خالی پن ہم کو مکمل کرے گا۔

یہ سفر اس آگہی کے حصول پر ختم ہوتا ہے کہ دنیا اور اس کا ہز ذرہ حسین ہے اور اس حسن کو دیکھنے اور اس سے محظوظ ہونے کے لیے انسان کو کسی خاص دوربین یا خورد بین کی ضرورت نہیں ہے، جسے بنانے کے کارخانے میں وہ کام کرتا ہے۔ اسے بس ایک لمحے کی ضرورت ہے جس میں وہ خود سے خالی ہو اور کائنات کا حسن اس خالی پن کو اپنے رنگوں سے بھر دے۔ اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بس ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے اور اس حسن کو دیکھنے کو اپنا کار و بار بنا لے۔ یہ دنیا حسین ہے صرف اس لیے کہ اس حسن کا میں بھی ایک حصہ ہوں، بلکہ میں خود اسے حسین بناتا ہوں اپنے ”کام” سے۔ آفاق کی اس گارگہہ شیشہ گری میں، اس شیشے کے گھر میں ایک عکس نظر آتا ہے۔ انسان کو اپنی آنکھوں سے سماجی تربیت کی وہ دھول ہٹانی ہے، تا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ در اصل یہ عکس کسی اور کا نہیں بلکہ خود اس کا اپنا ہے۔ میرا عکس، اس ”میں” کا عکس جو شیشوں کے اس گھر کو تعمیر کرنے میں اپنی محنت لگاتا ہے۔ ان ہاتھوں کا عکس جس نے اس گھر کی اینٹوں کو سیدھا کیا۔ ان تمام زمانو ں کا عکس، ان نفوس و اجداد کا عکس جو اس سے پہلے اس شیشہ گھر میں آئے تھے۔

آئنے کی حقیقت کیا ہے؟ آئنہ اپنے تئیں ادھورا ہے۔ جب تک اس پر منعکس ہونے کے لیے کوئی وجود نہ ہو۔ آئنہ خود اس لیے کھڑا ہے، کیوں کہ عکس پیدا کرنے والا وجود موجود ہے۔ آئنہ زندہ ہی اس لیے ہے کہ یہ موجود اپنے عکس سے جڑ سکے۔ آئنہ وہ نکتہ ہے، جہاں یہ دوئی جنم بھی لیتی ہے اور مٹ بھی جاتی ہے۔ یہی نکتہ لاکاں (Jacques Lacan) کی mirror image stage کی تشریح ہے۔ یہ منعکس شدہ عکس موجود صرف اسی لیے ہے کیونکہ وجود اپنی متفرق جہتوں سمیت اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اور موجود کو اپنی تصحیح کے لیے، زیب و آرایش کے لیے یا یوں کہیے خود مکمل ہونے کے لیے اس ’شیشہ گھر‘ کی، اس عکس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس شیشہ گھر کو ، اس عکس کو زندہ رہنے کے لیے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ لفظ بھی ایک آئینہ ہے۔ لفظ کے آئنے میں انسان خود کو دیکھتا ہے اور مکمل کرتا ہے۔ مگر یہی لفظ ایک پردہ بھی ہے جس کے پیچھے انسان اپنے اصل محرکات چھپاتا ہے۔ مجھے اگر کسی کو بتانا ہے کہ اس کا خاص فعل مجھے نا پسند ہے تو میں لفاظی کا سہارا لیتا ہوں۔ ایسا بیانیہ بناتا ہوں کہ میرا متکلم میرا پیغام بھی پا جائے اور مجھ سے ناراض بھی نہ ہو۔ نفسیانی زبان میں لفظ ایک پردہ ہے جس کی تہوں میں بیٹھ کر انسان آرام دہ محسوس کرتا ہے، خود سے جھوٹ بولتا ہے۔ جب ایک مریض ایک نفسیات دان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں یا یہ کہ مسئلہ یہ ہے کہ میرا رفیقِ حیات مجھے سمجھ نہیں پاتا تو نفسیات دان ان الفاظ پر یقین نہیں کرتا بلکہ ان الفاظ کے پردے میں چھپے حقیقی معانی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیات دان یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ واقعتاً مریض کا رفیقِ حیات اسے نہیں سمجھتا یا مریض خود اپنے رفیقِ حیات کو نہیں سمجھتا، نہیں سمجھنا چاہتا، یا خود کو ہی نہیں سمجھتا اور اپنے رفیقِ حیات پر یہ الزام لگا رہا ہے۔ نفسیات دان کے نزدیک یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مریض اپنے ساتھی کو چھوڑنا چاہتا ہے اور یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھتا تا کہ مریض اپنے ساتھی کو چھوڑنے سے پیدا ہونے والے guilt کو justify کر سکے۔ تو یہاں لفظ اپنی سطحی بناوٹ میں گم ہو رہا ہے اور نفسیات دان اس لفظ کے پردے میں چھپی تلخ حقیقت تک پہلے خود پہنچتا ہے، پھر ہاتھ پکڑ کر مریض کو لے جاتا ہے جہاں وہ خود اپنا چہرہ نئے الفاظ کی روشنی میں دیکھ سکے۔ free association کے ذریعے نفسیات دان دراصل مریض کے لاشعور میں چھپے ایسے الفاظ ڈھونڈ نکالتا ہے جو سالوں کی کاوش سے مریض نے دبا دیے ہوتے ہیں مگر وہ اس کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔

ایک تصور ہی ہے کہ کل حرکت، خواہشات کے اس انبار کی تکمیل کا شاخسانہ ہے، جو انسان کے اندر گاہے بگاہے جنم لیتی رہتی ہیں۔ ان میں سے چند خواہشات کی تکمیل ناگزیر ہے، جیسے دو دن سے بھوکے بچے کی خواہش کی تکمیل کہ اسے روٹی مل جائے یا ایک بے سہارا ، در بدر بھٹکنے والی کی خواہش کہ اسے چھت کا سایہ نصیب ہو جائے وغیرہ۔ مگر خواہشات کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس کی تکمیل صرف ”کام” کرنے کی حس کا پیٹ بھرنے کے لیے ہے۔ یہ خواہش کہ میرے پاس مہنگی گاڑی ہو، جبلی نہیں بلکہ ایک سماجی خواہش ہے۔ انسان سے یہ بات معاشرے سے سیکھی کہ اسے ایسی خواہش کرنی ہے تاکہ وہ اس خواہش کے زیرِ اثر زیادہ سے زیادہ کام کرے، فارغ نہ بیٹھے۔ انسان دن رات کام کرتا ہے۔ شاید کسی جگہ پہنچنے کے لیے بلکہ بسا اوقات صرف اس لیے کہ لوگ اس کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ بڑا کامیاب انسان ہے۔ یہ فقرہ سننے کے لیے اور خود وہ دوسروں سے معتبر سمجھنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔

بدھ مت والوں کاخیال ہے کہ خود کو معتبر سمجھنے، ثابت کرنے اور لوگوں کی نظر میں بڑا دکھنے کی یہ خواہش دراصل اس کرب کی وجہ بنتا ہے جس میں جدید انسان پھنس گیا ہے۔ یہ ایک ایسا انسان ہے جو ہوا کے جھونکے کی آواز سن کر سر دھننا بھول گیا ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر ضروری عمل ہے۔ اس انسا ن کو تو بس فوکس کرنا ہے، آنکھیں بند کر کے ایک خاص ہدف کی تکمیل کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے اندرونی سفر کا آغاز ہوتا ہے، آنکھیں کھولنے کا عمل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).