تئیسواں خواب نامہ۔۔۔ عورت۔۔۔اسلام۔۔۔خلع


29 مئی 2018
درویش شب کاذب کا سلام قبول کیجئے۔
یا درویش کچھ علالت کے باعث ذہنی فوکس نہیں ہے۔ اس لئے منتشر و بے ترتیب تحریر کے حسن کو قبول کیجئے گا۔
یہاں روایتی رنگ میں دور دور سے سائرن کی آوازیں آ رہی ہیں۔ جو روزے داروں کو جگانے کے لئے ہیں گرچہ شہروں میں یہ سوتے ہی سحر کے بعد ہیں مگر روایت سے انحراف بھی روایت کی بے احترامی کے مترادف ہے۔

یا درویش رابعہ بس زندگی کی طالب علم ہے۔ جو علم و بے علمی کا مجموعہ ہے۔ رابعہ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک دن یہ سب تحقیق و جستجو مل کر کسی خدا کے وجود کو سائنسی طور پہ ثابت کر دیں گے اس روز سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ ایک نئی زندگی صفر سے شروع ہو گی۔

رابعہ کا خیال بھی یہی ہے اس کائنات میں جتنے انسان ہیں، اتنے ہی سچ ہیں اور اتنی ہی کہانیاں ہیں، اتنے ہی سوال، اتنے ہی کلیے، اوراتنے ہی نتائج ہیں۔
اگر انسان اس حقیقت کو پا لے تو بہت سی بشری خامیوں سے بچ کر پر سکون ہو سکتا ہے۔

ہر سوال ایک ہی کلیے سے حل نہیں ہو سکتا اور نیا کلیہ لگانے سے بھی نتیجہ ایک ہی نہیں مل سکتا۔
یہ زندگی بہت گھمبیر سوال ہے جس کی جزیات سمجھتے سمجھتے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی ہے اور انسان سو جاتا ہے۔

یا دوریش کل سے رابعہ کے دل کا حال کچھ یوں ہے جیسے اس نے اپنی بیٹی رخصت کی ہو کیونکہ اس نے بھی اپنے دل میں اک باغ محبت بسا رکھا ہے۔ جہاں وہ بے لوث محبتوں کی خاموش پرورش کر تی ہے۔ رابعہ کے لئے ان سے ملنا بھی ضروری نہیں ہوتا، جن کو وہ چاہتی ہے۔ وہ درویش کی طرح آزاد پرندہ نہیں ہے۔ اس کا دل چاہے بھی تو وہ آزادی کی بے دھڑک ہواؤں میں اڑ نہیں سکتی، اس لئے وہ دل میں بسائے چند لوگوں سے بنا ملے، بنا بات کیے محبت کیے چلے جاتی ہے۔

انہی محبتوں میں اس کی بڑی پھوپھو شہناز کی محبت بھی ہے۔ جو چند ہفتوں سے رابعہ کے شہر اور کمرے میں بھی موجود تھیں۔ ان کی واپسی نے اسے اداس کر دیا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں گھر والو ں کو تو اپنے گھر جا نا ہی ہوتا ہے۔

رابعہ کل سے درویش کے اس جملے کو بھی یاد کر رہی ہے inspire and intimidate۔
اور اسے خیال آ رہا ہے کہ متاثر ہونے کا حسن intimidate ہوجانے سے بد صورتی میں یوں بدل جاتا ہے کہ intimidate ہونے والا ردعمل کے طور پر شعوری ولا شعوری طور پہ، جب دوسرے فریق کو intimidateکرتا ہے۔ کہ اس کو اپنی اہمیت و برتری کا احساس دلا سکے۔ اسے hurt and ignore کرتا ہے، تو کبھی نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے اور نامناسب اور بے توقیر کرنے والے رویے اپناتا ہے۔ اورسمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ تو اپنا آپ چھپانے کی سعی میں ہے۔

وہ اس دیوی یا دیوتا کو خامشی سے چھوڑ کیوں نہیں دیتا جس کی وہ نا پرستش کر سکتا ہے۔ نا شرک قبول کر سکتا ہے۔ نا خرید سکتا ہے۔ کہ سب سودے اس کی ذات کی نفی یا اناکی دیوار کی تسخیر ہیں۔
آخر اس کی لا حاصلی و اضطرابی نفسیات ہے کیا؟

رابعہ کو اپنے سوال بھی یاد ہیں
مرد و عورت؟

رابعہ کو لگتا ہے مرد عمل ہے عورت محض ردعمل۔ اور اس عمل و ردعمل کا توازن عمل 5%ردعمل95%
اگر مرد 5 فی صد محبت دیتا ہے تو عورت ردعمل کے طور پہ 95 فی دے گی۔ اگر وہ خالص عورت ہے۔ اگر مرد نفرت یادوری5 فی صد دے گا تو کئی گنا پا لے گا۔ اور یہ کلیہ مرد و عورت میں ہر شعبہ زندگی میں، ہر رویہ زیست میں با احسن دکھائی دیتا ہے۔ بس ذرا دیدہ بینا و چشم بصارت کی ضرورت ہے۔

اس عمل ردعمل کا زبان سے ادا ہونا بھی ضروری نہیں۔ یہ وہ کیمسٹری ہے۔ جونیت وسوچ میں بھی ہو تو خود بخود سفر کرتی اپنے ٹارگٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ردعمل بھی خود بخود لا شعوری و غیر ارادی طور شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک سائنسی عمل ہے۔ رابعہ مانتی ہے ایک روز سائنس تمام روحانیات کو وجودی طور پہ ثابت کر دے گی۔

رابعہ کی زندگی کا تجربہ بھی یہی کہتا ہے۔ اور اس کا مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ مرد و عورت کا تعلق ہر رشتے میں عمل و ردعمل کا تعلق ہے۔ عورت کا کوئی بھی ردعمل دیر سے ظاہر ہوتا ہے اور شدید ہوتا ہے یہ اس کی طبعی ساخت کے مطابق ہے۔
رابعہ نے عورت کی محبت کو بھی اسلام میں موجود خلع کے قانون سے سمجھا ہے۔

کہ اس کی نفسیات اتنی شدت پسند ہے کہ اگر وہ کسی کے ساتھ نا رہنا چاہے توکوئی شے اس کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنتی یعنی پھر وہ compromise بھی نہیں کر سکتی۔ کائنات کی دولتیں، قوتیں بھی اس کے قدموں میں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ گویا اس کا دل اتنا عجب ہے کہ کوئی اگر دل سے اتر گیا، تو اتر گیا۔
جب کہ مرد کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ اس کے دل میں دل سے اتر جانے کے بعد بھی جگہ رہتی ہے۔

رابعہ اگر صرف اردو ادب کے حوالے سے بات کرے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں مرد کا نفسی کردار لکھا ہی نہیں گیا۔ مرد ادیب خود بھی مرد کا کردار نہیں لکھ سکے۔ مرد کی اپنی بھی الگ نفسیات ہے۔ عورت سے الگ اس کی اپنی شخصیت ہے۔ جو اس نے نہیں لکھی۔ یو ں لگتا ہے جیسے وہ عورت کو متاثر کرنے کے لئے لکھتا رہا، یا کسی خیالی عورت کا پیکر بناتا رہا۔ یا پھر اپنے کرداروں سے خود ہی عورت کو سمجھتا رہاہے۔ یا سمجھاتا رہا ہے۔ اس نے عورت کے بہت سے کردار لکھے۔ ناقدین نے ان پہ خوب داد بھی دی کہ واہ کیا تصویر کشی کی ہے عورت کی نفسیات کی مگر افسوس کے ساتھ یہ اس کے اپنے ذہن کا، من کا سچ تھا

عورت تو ادب میں اصل رنگ میں تب جلوہ گر ہوئی، جب عورت نے خود لکھنا شروع کیا۔ اور اپنے نام سے لکھنا شروع کیا۔
مرد ابھی بھی اپنا کردار نہیں لکھ سکا۔ بہت ہی کم ادیب ایسا کر سکے اتنے کم کہ ان کی گنتی پوروں پہ کی جا سکتی ہے مگر اس میں بھی اکثر نے ہیولے ہی بنائے ہیں۔

سونے پہ سہاگا کہ جس یونیورسٹی کے بھی تھیسس کی فہرست اٹھا لیجیے موضوعات انتہائی مماثل کہ ’فلاں کے ادب کا نسائی تجزیہ۔ ‘ جس کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ڈگریاں اذہان اور رویوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور حسن یہ کہ جو جتنا زیادہ ڈگری یافتہ ہے اتنا زیادہ عورت کا استحصال کرتا دکھائی دے گا۔ وہ باقاعدہ جذباتی، زبانی، جسمانی، ذہنی، کرداری اطوار استحصال تعلیم کے ستو ن پہ چڑھ کرسیکھ جاتا ہے۔ اور پھر اس سے تا عمر کھیلتا ہے۔ یہاں تک کے اس کو علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے آس پاس مکافات عمل شروع ہو چکا ہے۔

رابعہ کو افسوس ہے جس معاشرے میں وہ رہتی ہے وہاں ڈگریاں بڑھ رہی ہیں، علم نہیں۔ معاشرہ عملی طور پہ گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ یہاں کسی کو چاند پہ جانے کی جستجو نہیں، یہاں کوئی آسمان سے آگے کی دنیا میں نہیں جانا چاہتا۔ کسی کو بھی زمیں سے نیچے کی دنیا میں دلچسپی نہیں۔ گنتی کے چند لوگ ہیں ان کو یا تو یہ زمیں چھوڑنی پڑتی ہے یا پھر موت اس کے لئے بانہیں کھولے کھڑی ہوتی ہے اور معاشرہ و گھرانہ کھلے دل سے اسے موت کی آغوش میں دے دیتے ہیں کہ زندہ رہ جانے والوں کو پاگل کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا۔

رابعہ کے ارد گردبہت سے علم کے فرعون اور فرعونوں کی ٹو لیاں ہیں۔ یہ فرعون اکیلے سفر نہیں کرتے گروہوں میں کرتے ہیں۔ رابعہ کو ان کی ذہنی و سماجی حالت پہ بھی ترس آتا ہے۔
رابعہ نے تو یہاں علم کے ابو جہل بھی دیکھے ہیں۔

رابعہ بھی فطرت کو مانتی ہے۔ اسی لئے ایک خدا کو ناماننے والے سے دوستی ہو گئی ہے۔ کیونکہ اس نے ایک خدا کو ماننے والے کا فر بھی تو دیکھے ہیں۔ وہ آزادی رائے و آزادی زیست و آزادی انسان کی عزت کرتی ہے۔ اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

رابعہ درویش سے اجازت چاہتی ہے کہ یہا ں دو پل ملنے والے ہیں۔ رابعہ ان کے وصل کا بھی احترام کرتی ہے اور ان کو خلوت میں جلوت کی محبت بھری دعا دیتی ہے۔
وہ خلا کے خالی پن کے درد سے بھی تو آشنا ہے۔
رب راکھا یا پردیسی درویش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).