جانور راج: میجر کی انقلابی تقریر


قسط نمبر 2۔

”مگر کیا یہ قدرت کے منصوبے کا حصہ ہے؟ کیا یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری دھرتی ماں ایسی کنگلی ہے کہ اپنی کوکھ کے پلے بیٹوں کو، ایک باعزت زندگی بھی نہیں دے سکتی؟ نہیں کامریڈز! ایک ہزار بار نہیں۔ انگلستان کی زمین زرخیز ہے، اس کی آب و ہوا خوشگوار ہے، یہ اتنی خوراک پیدا کر سکتی ہے کہ جتنے جنے ہم اب ہیں اس سے کئی گنا زیادہ جانور اس پہ پل سکتے ہیں۔ یہ ایک ہمارا فارم ہی، ایک درجن گھوڑوں، بیس گائیوں، سینکڑوں بھیڑوں، کو پال سکتا ہے۔ اور وہ بھی ایسی موج اور مزے میں کہ آج ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تو پھر اس بے چارگی کی حالت میں کیوں جیا جا رہا ہے؟ کیونکہ، قریباً ہماری محنت کا سارا ہی پھل آدم زاد، چرا لیتے ہیں۔ یہ، کامریڈز یہ ہے جواب ہماری ساری مشکلوں کا۔ ایک ہی لفظ میں سب سما جاتا ہے۔ انسان! انسان ہی ہمارا حقیقی دشمن ہے۔ انسان کو منظر سے ہٹا دو تو بھوک اور مشقت کی بنیادی وجہ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کی جا سکتی ہے۔

” انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو کچھ بھی پیدا کیے بغیر سب کچھ ہڑپ کر رہی ہے۔ وہ نہ دودھ دیتا ہے، نہ ہی انڈے، وہ اتنا کمزور ہے کہ ہل تک نہیں کھینچ سکتا، نہ اتنا تیز دوڑ سکتا ہے کہ خرگوش ہی پکڑ لے۔ پھر بھی وہ سب جانوروں کا آقا ہے۔ وہ ان کو کام میں جھونکتا ہے اور جواب میں ان کو فقط اسی قدر ملتا ہے کہ وہ فاقے سے نہ مر جائیں اور باقی اپنے لئے اٹھا رکھتا ہے۔ ہماری محنت دھرتی کا سینہ چیرے، ہمارا گوبر اسے زرخیزی بخشے اور پھر بھی ہم میں سے کسی کے بھی پاس اس کی چمڑی کے سواء کچھ نہیں۔ یہ جو میرے سامنے گائیں بیٹھی ہیں آپ، آپ ہی نے اس سال کتنے ہزاروں گیلن دودھ دیا ہو گا؟ وہ دودھ جو آپ کے بچھڑوں کو پال کے مضبوط کرنے کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھا، اس دودھ کا کیا ہوا؟ اس کا ایک ایک قطرہ ہمارے دشمنوں کے نلووں میں اتر گیا۔ اور یہ آپ، مرغیاں، اس سال میں آپ نے کتنے انڈے دیے، اور ان انڈوں میں سے کتنوں کو سیہہ کر چوزے پیدا کیے؟ باقی تمام بازار میں بک گئے تاکہ، جانی اور اس بندوں کے لئے پیسہ کمایا جا سکے۔ اور تم، کلوور! کہاں ہیں وہ چاروں بچھیرے جو تم نے جنے، جنہیں تمہارے بڑھاپے کا سہارا اور آنکھوں کی ٹھنڈک بننا چاہیے تھا؟

ہر ایک سال بھر کی عمر میں بیچ دیا گیا، تم ان میں سے کسی کو بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گی کلووربی بی! تمہاری چار زچگیوں اور کھیتوں میں بہائے گے پسینے کے عوض میں سوائے تمہاری معمول کی سانی اور ایک تھان کے تمہیں کیا ملا؟

” اورحد یہ ہے کہ یہ بے چاری سی زندگیاں جو ہم گزار رہے ہیں ان کو بھی اپنے فطری انجام تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ میں اپنے لئے نہیں کہہ رہا کیونکہ میں تو خوش نصیبوں میں سے ہوں۔ میں بارہ سال کا ہو چکا ہوں اور میرے چار سو سے زیادہ بچے، یعنی سور کے بچے ہیں۔ یہ ہی ایک سور کی اصل حیات ہے۔ مگر کوئی بھی جانور آخرش ظالم چھری سے بچ نہیں سکتا۔ یہ تم جو جوان سؤر، میرے سامنے بیٹھے ہو تم میں سے ہر ایک سال بھر کے اندر اندر ہی مڈھی پہ ڈکراتے ہوئے جان دے دے گا۔

اس بربریت کا سامنا، ہم میں سے ہر ایک کوکرنا پڑے گا، گائیوں، سؤروں، مرغیوں، بھیڑوں ہر کسی کو۔ کتوں اور گھوڑوں کے نصیب بھی کچھ اچھے نہیں۔ تم باکسر! جس دن تمہارے یہ مضبوط پٹھے اپنی طاقت کھو دیں گے، جانی، تمہیں چمار کے ہاتھ بیچ دے گا جو تمہارا گلا کاٹ کے، تمہارا گوشت ابال کے، شکاری کتوں کو ڈال دے گا۔ اور کتے، جب وہ بوڑھے اور بھدے ہو جاتے ہیں، جانی ان کے گردن سے اینٹ باندھ کے انہیں کسی بھی قریبی جوہڑ میں ڈبو دیتا ہے۔

” تو پھر کیا یہ روزِ روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کامریڈز! کہ ہماری اس زندگی کی تمام برائیاں انسان کے جبر سے جنم لیتی ہیں؟ بس انسان سے نجات حاصل کر لو اور پھر جس کی محنت اس کاحاصل۔ بس رات بھر میں ہی تم آزاد بھی ہو جاؤ گے اور امیر بھی۔ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیوں نہ، دن رات لگا کے، جسم وجان لگا کے نسل انسانی کا تخت گرا دیا جائے؟ اور یہ ہی آپ کے لئے میرا پیغام ہے کامریڈز! انقلاب : میں نہیں جانتا کہ یہ انقلاب کب آئے گا، یہ ایک ہفتے میں بھی آ سکتا ہے اور ایک سو سال میں بھی، مگر میں اتنا جانتا ہوں اور جتنا یقین مجھے اپنے قدموں تلے بچھی اس پیال کے ہونے پہ ہے اتنا ہی یقین اس بات پہ ہے کہ جلد یا بدیر انصاف ہو گا۔ کامریڈز! اپنی مختصر زندگیوں کو اسی کے لئے وقف کردیں، اسی کو اپنا مطمح ء نگاہ رکھیں۔ اور سب سے بڑھ کے میرے اس پیغام کو اپنے بعد آنے والوں تک پہنچانا ہو گا، تاکہ آنے والی نسلیں اس جدوجہد کو جاری رکھیں یہاں تک کہ ہم فتح یاب ہو جائیں۔

” اور یاد رکھئیے گا کامریڈز! آ پ کی قرار داد کو کبھی کمزور نہیں پڑنا چا ہیئے۔ کوئی بھی دلیل آ پ کو بھٹکا نہ پائے۔ جب وہ کہیں کہ انسان اور جانوروں کا کوئی مشترکہ مفاد ہے اور یہ کہ ایک کی خوش حالی دوسرے کی خوش حالی ہے تو ان کی ایک نہ سننا۔ یہ سب جھوٹ ہیں۔ انسان ماسوائے اپنے کسی بھی مخلوق کے بھلے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ اور ہم جانوروں کے درمیان مکمل اتحاد ہونا چاہیے۔ اس جدو جہد کے لئے ایک بہترین کامریڈ شپ۔ تمام انسان دشمن ہیں۔ تمام جانور کامریڈز۔ ‘‘

عین اس موقعے پہ زور دار غوغا بلند ہوا۔ میجر کے خطاب کے دوران، چار چوہے اپنے بلوں سے نکل کے اکڑوں بیٹھے، اسے سن رہے تھے۔ اچانک کتوں کی نظر ان پہ پڑ گئی۔ جھپاک سے بل میں نہ گھستے تھے تو کتوں سے بچنا ممکن نہ تھا۔ میجر نے خاموش کرانے کے لئے اپنا کھر اٹھایا۔

” کامریڈز! ‘‘ اس نے کہا۔ ’’ایک بات ابھی واضح ہو جانی چاہیے۔ جنگلی جانور، جیسا کہ چوہے اور خرگوش۔ کیا ہمارے دوست ہیں یا دشمن؟ چلئے اس پہ رائے شماری کرا لیتے ہیں۔ میں اجلاس کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں : کیا چوہے کامریڈز ہیں۔ ‘‘

رائے شماری فوراً ہی ہو گئی اور بھاری اکثریت سے یہ تسلیم کر لیا گیا کہ چوہے کامریڈ ہیں۔ بس چار ووٹ مخالفت میں تھے، تینوں کتے اور بلی جو کہ بعد ازاں معلوم ہوا، دونوں طرف ووٹ ڈال گئے تھے۔ میجر نے خطاب کا سلسلہ جاری کیا۔

”میرے پاس مزید کچھ کہنے کو نہیں۔ میں بس دہرا رہا ہوں کہ انسان اور اس کے تمام طور طریقوں کے خلاف دشمنی نبھانے کا اپنا فرض ہمیشہ یاد رکھئے گا۔ جو کوئی دو ٹانگوں پہ چلتا ہے، دشمن ہے۔ جس کسی کے پر ہیں یا چار ٹانگوں پہ چلتا ہے، دوست ہے۔ اور یاد رکھنا کہ انسان سے اس جنگ میں، ہمیں اس جیسا نہیں بننا۔ حتیٰ کہ جب آپ اس پہ غلبہ بھی پالیں گے تب بھی اس کے طور طریقے نہیں اپنائیں گے۔ کوئی جانور کبھی کسی مکان میں نہیں رہے گا، نہ بستر میں سوئے گا، نہ کپڑے پہنے گا، نہ شراب پیے گا، نہ تمباکو پھونکے گا، نہ پیسوں کو ہاتھ بھی لگائے گا، نہ ہی تجارت میں ملوث ہو گا۔ انسان کی تمام عادات، بد ہیں۔ اور سب سے بڑھ کے کوئی جانور کبھی اپنی ہی نوع پہ جبرنہیں کرے گا۔ کمزور یا مضبوط، چالاک یا سادہ، ہم سب ایک برادری ہیں۔ کوئی جانور کبھی کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔ تمام جانور برابر ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: تبدیلی کا خوابجانور راج ؛ وحوشِ انگلستان کا ترانہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).