نوجوان جوڑے کی شادی میں سبق ہے


عمر آسٹریلیا میں طالب علم تھا اور میں پاکستان میں، عمر اکیس جبکہ میں بائیس برس کی تھی۔ نہ تو وہ اپنے قدموں پر کھڑا تھا نہ ہی میں نے زندگی میں کوئی مقام حاصل کیا تھا۔ اچھی نوکری؟ عالیشان بنگلہ، مہنگی آرام دہ گاڑی۔ عمر کے پاس یہ سب تھا نہ ہی میرے پاس۔ ہم دونوں طالب علم تھے جب ہماری شادی ہوگئی۔ شادی کی تقریب سادگی سے ہوئی۔ لباس اور زیورات وغیرہ ملاکر مجھ پر پندرہ ہزار روپے خرچ ہوئے۔ عمر نے نیا کڑتا پہنا۔ تقریب میں قریبی رشتے داروں اور عزیزوں نے ہی شرکت کی۔

ہم نے شادی انتہائی سادگی سے کی، کیوں کہ ہم شادی پر ہونے والے تمام تر اخراجات کو بچا کر پیسے اپنے محفوظ مستقبل کیلیے انویسٹ کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے شادی کو اتنا ہی آسان بنادیا تھا جتنا اسے ہونا چاہیے۔ نہ عمر اور نہ ہی میرے خاندان کی جانب سے شرائط رکھی گئیں۔ ہمارے خیال میں ایسی تقریب کےلیے پیسہ برباد کرنا بلکل فضول تھا جسکا کوئی مقصد ہی نہیں۔ اور پھر اس قدر فضول خرچی کے بعد بھی لوگوں نے شکایات تو کرنا ہی ہوتی ہیں۔ میرے آسٹریلیا جانے سے قبل عمر دیگر طالب علموں کیساتھ ہوسٹل میں رہتے تھے مگر میرے بعد وہ گھر میں شفٹ ہوگئے۔ ہم نے صفر سے زندگی کی ابتدا کی۔ انہوں نے مجھے زندگی کی ہر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ فریج، ٹی وی، واشنگ مشین، ہیئر ڈرائیر اور مسلم شاور! مجھے سب کچھ میسرآیا۔

اگر معاشرے کی نگاہ سے دیکھا جائے تو چار برس اکٹھے گزارنے اور اولاد کے حصول کے باوجود ہم سیٹل نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو سر پر چھت، گھومنے پھرنے کو گاڑی، کھانے کو اچھا کھانا، بہتر لباس، کافی مشین، بہتر موبائل فونز، اچھی صحت اور قہقہوں کیساتھ ہم درست سمت کی جانب گامزن ہیں۔ میرے شوہر نے اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بنایا ہے۔ مجھے اپنے شوہر پر،اپنے انتخاب پر فخر ہے۔

یہ کہانی چند روز قبل ایک پاکستانی جوڑے نے اپنی شای کی سالگرہ پر شیئر کی۔ ہزاروں لوگوں نے اس کو پسند کیا اور شیئر بھی کیا۔ کیا اس کہانی کو پسند کرنے والے اسے اپنی زندگی کا حصہ بھی بنا سکیں گے؟

ہم نے شادی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ نوجوانوں میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کو اپنائیں۔ سہارا دیں اور پھر اچھا وقت ایک ساتھ بتائیں۔ آج ہر دوسری لڑکی کو انتظار ہے تو اپنے خوابوں کے شہزادے کا۔ جو لاکھوں روپے شادی کی تقریب پر خرچ کرے، کروڑوں کی گاڑی میں آئے اور کسی عالیشان محل میں لے جائے۔ لڑکی والوں کو طلب ہے تو لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے لڑکے کی اور لڑکے والوں کو چاہیے تو لاکھوں روپے کا جہیز!!

جو لڑکی آپ کو اس وقت اپنا نہیں سکتی جب آپ مشکل وقت سے گزر رہے ہوں، جب آپ زیر تعمیر ہوں۔ جب آپ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہوں۔ اس کو آپ اپنے اچھے وقت میں کیسے شریک کرسکتے ہیں؟ کل کو وقت بدل گیا تو وہ کیوں نہیں بدلے گی؟

اس ہی طرح سے جو لڑکا محض جہیز، زبان، رنگ اور قبیلے وغیرہ کی بنیاد پر شادی کررہا ہے۔ جو شادی سے قبل ہی پابندیاں لگا رہا ہے۔ شرائط رکھ رہا ہے۔ سامان کا لالچ کررہا ہے۔ وہ کیسے آپکی قدر کریگا؟ ذرا سوچیے!!!

شادی پر لاکھوں روپے خرچ کرنے، رئیس پاٹنر تلاش کرنے اور سیٹل ہوتے رہنے کا انتظار کرنے سے بہتر ہے ایک دوسرے کو اسکے مشکل وقت میں اپنائیں۔ مل کر اپنا آشیانہ بنائیں۔ اس نوجوان جوڑے کی طرح آپ بھی شادی کو آسان اور خالص بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).