کیا پی ٹی وی واقعی غیر سیاسی ہو گیا ہے؟


پاکستان تحریک انصاف نے وفاق میں اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ہی وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے پاکستان ٹیلی ویژن سے سیاسی سنسرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بی بی سی نے سرکاری ٹیلی ویثرن پی ٹی وی میں کام کرنے والے عملے سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا واقعی پی ٹی وی نے حکومت کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کو کوریج دینے اور حکومتی تنقید کو نشر کرنا شروع کردیا ہے۔

پی ٹی وی سینٹر پشاور میں کام کرنے والے ایک پروڈیوسر نے نام نہ بتانے کی شرط پربی بی سی کو بتایا کہ جب سے وفاقی حکومت نے سنسرشپ اٹھانے کا اعلان کیا ہے تو خبروں کے رن ڈاون میں واضح تبدیلی آئی ہے۔

انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خبرنانہ میں خبروں کو رن ڈاؤن کچھ اس طرح بنتا تھا کہ سب سے پہلے عموما وزیر اعظم کی خبر نشر ہوتی تھی اور اس کے صدر اور وفاقی وزرا کی خبریں ہوتی تھیں۔

ان کے مطابق اس کے بعد زیادہ تر وزیراعلی پنجاب کی خبر آتی تھی۔ اسی طرح ججز اور آرمی چیف کی خبروں کو پہلے اہم ترین خبروں میں شامل کیا جاتا تھا۔

پی ٹی وی کے پروڈیوسر کے مطابق ‘اب خبر نامے میں خبروں کی ترتیب یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ پچھلے ہفتے رن ڈاون میں وزیر اعظم کی خبرکو سیریل نمبر 20 میں ڈالا گیا تھا جبکہ اسی بلیٹن میں اپوزیشن جماعتوں کی خبروں کو وزیر اعظم سے پہلے چلایا گیا تھا۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ ماضی میں حکومت پر تنیقد کو بلیٹن کا حصہ نہیں بنایا جاتا تھا لیکن اب تنقید پر مبنی خبریں بھی رن ڈاون کا حصہ ہوتی ہیں چاہے یہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ہوں یا کسی دوسرے اہم شخصیت سے۔

پی ٹی وی اسلام آباد میں کام کرنے ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں احکامات دیے گئے ہیں کہ پہلے کی نسبت اب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں کو بھی کوریج دینا ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں پی ٹی وی میں چار سال سے زائد کا عرصہ گزارا لیکن ایسی ہدایت ہمیں پہلی بار ملی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ نئی حکومت کے بعد پی ٹی وی میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ہم نے سوشل میڈیا کی ٹرینڈنگ کی خبریں کرنا شروع کی ہیں جس کی پہلے اجازت نہیں تھی۔

جب اُن سے ایڈیٹوریل پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں کسی نوٹیفیکیشن کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ پالیسی زیادہ تر زبانی ہی بتائی جاتی ہے کہ خبریں کس کی چلانی ہے اور کس کی نہیں۔

ریاستی میڈیا پر سنسرشپ ختم کرنے کے اعلان کے بعد مبصرین نے بھی پی ٹی وی کو تنقیدی جائزے کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

کراچی میں جیو نیوز سے وابستہ صحافی جبران پیش امام کا کہنا ہے کہ پہلے پی ٹی وی پر حکومت ‘سب آچھا’ ہی دکھاتی تھی۔

جبران کے مطابق ’حکومت پر تنقید اور اپوزیشن کے موقف کو خبرنامے میں جگہ نہ دینے پر پی ٹی وی کی بہت سخت کنزرویٹیو ادارتی پالیسی رہی ہے‘ لیکن جبران کو اب معاملات بدلتے نظر آرہے ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی وی پر اب وہ تنقید بھی نشر کی گئی ہے جسمیں عام انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھائی گئی تھی۔‘

جبران کہتے ہے کہ ایک اور تبدیلی جو دیکھنے میں آئی کہ پی ٹی وی نے بعض وہ شخصیات جن کے کچھ ریاستی اداروں کے بارے میں بہت سخت موقف رہے ہے کو بھی سکرین پر جگہ دینا شروع کی ہے۔

https://twitter.com/WorldPTV/status/1030769070168309761

اُن کے مطابق ‘یہ بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ ان شخصیات کو نجی چینلز بھی وقت دینے سے کتراتے ہیں۔‘

دوسری جانب جبران کا کہنا ہے کہ حکومت پر تنقید نشر کرنا اور پی ٹی وی بطور ادارہ اتنا آزاد بنانا کہ حکومت پر تنقید کر سکے دو مختلف چیزیں ہے۔

یہ آزادی کہ پی ٹی وی تنقید کرنے میں خود کتنا آزاد ہے شاید آنے والوں دنوں واضح ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ سنسرشپ ختم ہونے کے اعلان کے بعد پی ٹی وی نیوز نے ٹوئٹر پر پی ٹی آئی کے وزیر اعلی پنجاب کے ہیلی کاپٹر کی خبر بھی پوسٹ کی تھی جس پر مختلف لوگوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اپنی رائے دی تھی۔

اسی ٹویٹ میں لکھا گیا تھا کہ ‘سوشل میڈیا پر وزیر اعلی پنجاب کے چرچے، ڈی پی او پاکپتن کا معاملہ تھما نہیں کہ سرکاری ہیلی کاپٹر پر رشتہ داروں سے ملنے کی خبروں نے طوفان کھرا کردیا۔ پھر عثمان بزدار کی میاں چنوں آمد پر پروٹوکول یا سیکورٹی، سوالات کھڑے ہوگئے۔’

اسی ٹویٹ پر صحافی لحاظ علی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ ’پی ٹی وی؟؟؟ آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔’

ایک دوسرے صارف سنگین علی زادہ نے اسی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آج لگا پی ٹی وی ریاست پاکستان کا ادارہ ہے، حکومت یا کسی سیاسی جماعت کی نہیں۔

تاہم بی بی سی نے پی ٹی وی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نطر دوڑائی تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا کسی اپوزیشن جماعت یا رکن اسمبلی کے کسی بیان کو پوسٹ کیا گیا ہے یا نہیں۔ پی ٹی وی کے ٹوئٹر ہینڈل پر جمعے کو 12 بجے سے لیکر شام 9 بجے تک پوسٹس کا تجزیہ کیا تو ٹوٹل 57 پوسٹ شئیر کیے گئے تھے جس میں 30 حکومت کے کسی وزیر، مشیر، وزیر اعلی یا وزیر اعظم کے حوالے سے تھے جبکہ ان 57 پوسٹوں میں ایک بھی اپوزیشن کے کسی رکن یا جماعت کے بارے میں نہیں تھیں۔ اسی طرح 30 کے علاوہ باقی پوسٹس ملٹری، الیکشن کمیشن، عدالتوں کی پریس ریلیز اور مختلف ممالک کے وزیر خارجہ کے پاکستان کے بارے میں مثبت بیانات پر مبنی تھیں جبکہ تین ٹویٹس پٹرولیم مصنوعات کے قیمتوں میں کمی کے حوالے سے تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp