مانیکا کی بیٹی پولیس کو لے ڈوبی


ضلع پاکپتن کے پولیس افسر رضوان گوندل کے تبادلے کا تنازعہ ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچا تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے پنجاب پولیس کے سربراہ کلیم امام، انکوائری کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر خدا بخش، علاقائی پولیس افسر (آر پی او) ساہیوال شارق کمال اور ہٹائے گئے ڈی پی او رضوان گوندل پیش ہوئے۔ تینوں افسران نے عدالت کو معاملے میں اپنا موقف بتایا۔

چیف جسٹس نے عدالتی روسٹرم پر پولیس افسران کو بلا کر پوچھا کہ جی، یہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ پانچ دن سے قوم اسی کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ٹرانسفر رات کو ہو گیا، صبح ہو گیا۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ پولیس کو آزاد کرنا ہے، پولیس کو با اختیار بنانا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی کو مخابطب کر کے کہا کہ اگر پولیس نے با اختیار یا آزاد نہیں ہونا تو مرضی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیراعلی کے کہنے پر یہ تبادلہ کیا ہے یا اگر اس کے پاس کوئی بیٹھا ہوا ہے وہ کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی پراپرٹی ٹائیکون اور ڈیلر بیٹھا ہوا تھا، یہی ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسر کیوں ڈیرے پر چلا جائے، کدھر ہے مانیکا؟ جمیل گجر کدھر ہے؟ آئی جی کلیم امام نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ جمیل گجر کا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ کیا ہوا ہے۔ کلیم امام نے کہا کہ میری سروس کے 31 سال ہوگئے ہیں، ہمیشہ دیانتداری سے کام کیا، اقوام متحدہ کے ساتھ کام کیا، حکومت نے تمغہ دیا۔ چیف جسٹس نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ سروس کی ہے کہ ڈی پی او کو اٹھا کر باہر پھینک دو، رات ایک بجے یہ ٹرانسفر آرڈر پاس کیا ہے، کیا یہ درست ہے؟ ڈی پی او کو معافی مانگنے کے لیے کیوں کہا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رات کے ایک بجے تبادلہ کا حکم جاری کرنے کی ضرورت کیا پڑ گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس کو سیاسی دباؤ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پولیس آئی جی خود سیاسی دباؤ سے نکلنے کی کوششوں کو خراب کر رہا ہے۔ ہم نے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ کے مقدمے میں فیصلہ دے کر پولیس افسران کو طاقت دی اور مضبوط کیا تاکہ سیاسی و سرکاری دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھتا ہوں کون ہے وہ گجر، وہ کیسے یہ کر سکتا ہے؟ آئی جی نے کہا کہ میں پروفیشنل ہوں، گزشتہ الیکشن میں 24 افراد مارے گئے تھے اس الیکشن میں پولیس سربراہ تھا کوئی قتل نہیں ہوا۔ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ کبھی کسی سیاستدان کے کہنے پر کام نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قسم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ انتظامی حکم تھا۔ وزیراعلی نے بلایا تو یہ چلے گئے، ڈی پی او مجھ سے پوچھے بغیر گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے روکا نہیں؟ آپ نے اوپر بات نہ کی کہ میرے کسی افسر کو براہ راست نہ بلایا جائے؟ آئی جی نے کہا کہ میں نے ڈی پی او سے کہا کہ آئندہ مجھ سے پوچھے بغیر نہ جانا۔ رضوان گوندل نے مجھ سے غلط بیانی کی اور درست بات نہیں بتائی۔ مجھے اپنے ذرائع اور اسپیشل برانچ کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ ڈی پی او نے حقائق درست طور پر نہیں بتائے۔ آئی جی نے کہا کہ پاکپتن میں دو واقعات ہوئے، تاہم اس کی ذمہ داری ڈی پی او پر نہیں۔ ڈی پی او خود ناکے پر نہیں ہوتا مگر ان کو اپنے افسر کو بتانا چاہیے تھا۔

آئی جی پنجاب کلیم امام تیزی سے بولتے گئے اور کہا کہ کسی نے مجھے ڈی پی او کے تبادلے کے لیے نہیں کہا، میں ڈکٹیشن نہیں لیتا، اسی تیزی میں آئی جی انگریزی میں کہہ گئے کہ آپ جا کر کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں (یو کین گو اینڈ آسک اینی باڈی)۔ چیف جسٹس نے فورا کہا کہ آپ کیسے بات کر رہے ہیں، یہ کیا طریقہ ہے، عدالت کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے آئی جی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے انگریزی میں کہا کہ مسٹر آئی جی، آپ اپنی میں سے بھرے ہوئے ہیں ( یو آر ٹو فل آف یور سیلف)۔ پھر انگریزی میں ہی مزید کہا کہ آپ کی یہ ہمت کیسے ہوئی کہنے کی؟ آپ ہوتے کون ہیں عدالت کو اس طرح مخاطب کرنے والے کہ جائیں اور پوچھ لیں۔

آئی جی کلیم امام نے فورا معذرت کی اور کہا کہ میں نہایت ادب سے بتا رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ گریڈ اکیس کے افسر ہیں، گریڈ بائیس کی پوسٹ پر لگایا گیا ہے ابھی آپ کو ہٹا سکتے ہیں۔ اگر غلط بیانی کریں گے تو عدالت سے آئی جی کے طور پر ہی واپس نہیں جائیں گے۔ کیا آپ نے اپنے افسر کو روکا کہ وزیراعلی کے پاس نہ جائیں؟ آئی جی نے کہا کہ واقعہ یہ تھا کہ پاکپتن میں رات ساڑھے بارہ ایک بجے خاتون پیدل جا رہی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس خاتون سے پولیس نے پوچھ لیا، کیا یہ کوئی غلط کام تھا؟ کیا پولیس کو اس طرح کے غیر معمولی حالات میں پوچھنا نہیں چاہیے؟ کیا ڈی پی او اس وقت وہاں موجود تھا؟ پولیس نے حفاظت کےلئے خاتون سے پوچھ لیا تو کیا حرج ہے۔

آئی جی نے بتایا کہ پاکپتن میں روایت ہے کہ لوگ دربار پر جانے کے لئے 20 تا 25 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں، اس خاتون کے ساتھ ایک دوسری گاڑی کے افراد نے بدتمیزی کی، اس کا ہاتھ پکڑا۔

عدالت نے رضوان گوندل کو روسٹرم پر بلایا اور موقف دینے کی ہدایت کی۔ متاثرہ پولیس افسر رضوان گوندل نے بتایا کہ جمعہ 24 اگست کو وزیراعلی کے سیکرٹری حیدر کا تین چار بجے کے لگ بھگ فون آیا اور کہا کہ آپ دس بجے وزیراعلی دفتر آ جائیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ریجنل پولیس افسر کو بھی ساتھ لے کر آؤں۔ میں نے آر پی او شارق کمال کو فون کر بتایا اور کہا کہ وجوہات دو ہو سکتی ہیں، ایک پانچ اگست کا واقعہ ہے اور دوسرا 24 اگست والا، انہی کی وجہ سے بلایا گیا ہوگا۔ آئی جی کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا، ان کے آپریٹر نے کہا کہ مصروف ہیں تو جاتے ہوئے چھ سات بجے کے لگ بھگ ان کو واٹس ایپ پر پیغام بھیجا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3