جناب وزیر اطلاعات و نشریات: میڈیائی اداروں میں برہمن اور دیوداسی کلچر کیسے ختم ہو گا؟


وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے خرچے کا چرچا ہوا پرانا، اس “بریکنگ ٹوڈے” سے بڑی اہم اور “آج کی تازہ خبر” وہ ہے جس کا “تجزیہ” کرنے پر عوام کو “اب پتہ چلا” جب وہ “پاکستان نیوز روم” سے نکل کر سوشل میڈیا کے محاذ پر خوب گرم ہوگئی، جہاں اس پر “اب بات ہوگی” وہ بھی کھُل کر۔ کیونکہ “لگاتار دس” ہفتوں سے بول نیوز کے اندر موجود ملازمین سمیت مرکزی دفتر کے داخلی دروازے پر ماہانہ اُجرت کے سوالی افراد کا ہجوم اس بات کا تقاضہ کر رہا ہے کہ اب “ایسے نہیں چلے گا” ۔ “بس بہت ہوگیا” اب میڈیا مافیا کے سرکردہ عناصر پر “نیشنل ڈیبیٹ” بلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی ۔ کیونکہ تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آگئی ہے ۔ انصاف کے دروازے اب مظلوم اور مجبور میڈیا ملازمین پر بھی کھُلنے کی ایک نئی اُمید جاگ گئی ۔ جناب وزیر اعظم کی صحافیوں کے وفد سے حالیہ ملاقات اس بات کا واضح ثبوت ہےکہ ملک کا یہ ستون جسے صحافت کہا جاتاہے اس کے کسی معاملے کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان صاحب سے گذارش ہے کہ چند نامور صحافی حضرات سے جملہ اُمور پر تبادلہ خیال کے ساتھ اُن ہزاروں ورکرز جن سے آپ بالمشافہ ملاقات شاید ہی کبھی کرسکیں لیکن ہم خالصتا اس برادری سے تعلق رکھنے والےافراد آپ کے وزراء کے ذریعے آپ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔

بیشتر نیوز چینلز کی اسکرین پر نظر آنے والے اور سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات کے باعث نمایاں صحافیوں کے ساتھ ان اداروں کی کارکردگی، اندرونی کہانی ،چینلز کی اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کےلیے پالیسی کو داخلی بلکہ جبری سیاست کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ہم،آپ،تیز،بول،آج،سیون،پلس، چوبیس، پاک اور صاف،جی اور جناب جیسے ادارے چند مثالیں ہیں جن کے ملازمین کے ساتھ عرصے سے جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی المیے سے کم نہیں۔خسارے کے نام پر معاشی قتل عام تو پرانی بات ہوگئی اب یہاں ہراسانی کا کلچر بھی فروغ پا رہا ہے جس کی ایک الگ طویل داستان ہے۔صحافتی اداروں میں اخلاقیات کا گراف پردہ اسکرین کے ساتھ پردے کے پیچھے بھی مسلسل پاکستانی روپے کی قدر کی طرح گرتا جارہا ہے۔ درجنوں اداروں کے سینکڑوں ملازمین تنخواہوں کی جگہ ہیومن ریسورس کے افسران سے دھمکی آمیز القابات وصول کر رہے ہیں۔

بول نیوز کی ہی بات کرلیں جہاں ادارے کی جانب سے دی گئی اضافی مراعات اور لفافوں میں ملنے والی موٹی رقم جسے تنخواہ کہا جاتا ہے صرف اسکرین پر نمودار چہروں کا مقدر ہیں ۔ پی سی آر ارکان کی معاونت سے چلنے والی لگاتار لائیو ٹرانسمیشن، میک اپ آرٹسٹ،انجینیرز، ایڈیٹرز،رائیٹرز، پروگرامز ٹیم کے ممبر بشمول پروڈیوسرز غرض تمام عملہ ادارے کی “ری اسٹرکچرنگ” کے نام پر ہونے والی پرُسرار تبدیلیوں کے باعث اندرونی اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ضرور لیکن کبھی کسی کام یا ٹاسک سے انکاری نظر نہ آئے۔ اپنے خاندانوں کی کفالت میں برابر کے حصہ دار بول کے ملازمین عید الفطر کے ساتھ گذشتہ تین ماہ سے نہ ملنے والی تنخواہ کے بھی شدت سے منتظر رہے لیکن میڈیا انڈسٹری کے نمبر ون چینل نے کچھ ملازمین کی خوشیوں کو خاک میں ملا دیا۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دوران جب بول والاز معمول کی نشریات کے ساتھ عید کے خصوصی پروگرامز کی پلاننگ کےلیے دفتر کو اضافی وقت بھی دیتے نظر آئے،ایسے میں کچھ ملازمین کو ہنگامی میٹنگ کے ذریعے اچانک اور جبری برطرفی کے پروانے جاری ہوگئے ۔ نہ کسی تنخواہ کا ذکر نہ بقایاجات کے حساب کتاب کی نوبت آئی ۔یوں بھرپور صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کا ادارے کے ساتھ سفر تمام ہوا ۔ آفس کارڈ ضبط ہوئے اور نوے روز بعد کی تاریخ دے کر گھر کو روانہ کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ان ملازمین پر یہ ان دیکھی تلوار ماہ اپریل سے لٹک رہی تھی جب “پاک نیوز” کو اچانک بند کرکے سینکڑوں ملازمین کے معاشی استحصال کا آغاز کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے کے باوجود جاری رہا ۔ گویا مثبت صحافت کی تشہیر کا عزم لے کر میڈیا انڈسٹری میں کودنے والے بول کے منفی قدم نے ثابت کیا کہ اسے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کا پاس تک نہیں۔ ڈاؤن سائزنگ تو سن رکھا تھا “رائیٹ سائزنگ” کی اصطلاح کا مطلب بول نیوز نے سمجھا دیا۔ سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہےکہ جعلی ڈگریوں کی کالے دھندے کا خمیازہ محنتی اور فرض شناس ملازمین کو کیوں بھگتنا پڑا؟ایف آئی اے اور نیب شعیب شیخ کے پیچھے ہے تو چینل کا مالک کام کرنے والے ملازمین کے پیچھےکیوں؟

پورٹل پر سائنسی انداز میں ہر ماہ پرفارمنس شیٹیں بھروا کر اپ لوڈ کروانے کے بعد “بونس” صرف دکھانا گویا بلی کے خوابوں میں چھیچھڑے کے مترادف محسوس ہوا۔ ادارے کی جانب سے قابل تعریف عمل بھی سن لیجئے،عید قرباں پر قربانی کی استطاعت سے محروم بول والوں کو ڈسکاؤنٹڈ پیزے کی آفرز دی گئیں ۔ ماہانہ تنخواہ دینے سے مسلسل گریزاں ادارہ اصلی جہاز، سونے کے زیورات،گاڑی و بنگلے کے ساتھ اب دنیا کے سب سے بڑے سرپرائز کے سرخ ٹکرز بھی زور و شور سے چلا رہا ہے ۔ شاید اس بار جنت میں پلاٹ بانٹنے کا پلان ہو لیکن اسے حاصل کرنے کےلیےبول والاز کامرنا ضروری ہے کیونکہ اپنے ملازمین کا لائف اسٹائل تبدیل کرنے کے دعوے دار چینل نے گویا بعض ملازمین سے ان کی زندگی کا وہ ڈھنگ بھی چھین لیا جس کے ساتھ وہ اس سفید عمارت میں داخل ہوئے جہاں ان کے مقدر پر سیاہی جیسے داغ لگ گئے۔ایک کروڑ بچوں کو پڑھانے کےلیے نکلنے والے نے بول کے ملازمین کے بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔سروں سے چھت، منہ سے روٹی کا نوالہ ، آنکھوں سے بہتر مستقل کے سپنے نوچ لیے ۔ سوشل میڈیا گواہ ہے کہ پچھلی دو چاند راتیں ان ملازمین نے ادارے کی چوکھٹ پر سر پیٹتے ہوئے گذار دیں ۔ اپنا حق، اپنی محنت کا معاوضہ،اپنے واجبات کا تقاضہ کرتے روتے، چیختے چلاتے پائے گئے۔ موجودہ بول والاز کی زبان تو خاموش ہے لیکن آنکھیں تمام دُکھ بیان کرتی ہیں کیونکہ بول میں حق کے لئے بولنا منع ہے۔

محترم جناب فواد چوہدری صاحب،بہ حیثیت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اب چونکہ آپ ملک کے میڈیاسے متعلق تمام معاملات میں دلچسپی لیتے ہوئے گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ پیمرا کے ادارے کو ختم کرنے کے فیصلے سے لے کر سرکاری سیکٹر میں مزید نئے چینلز کی آمد کے بھی خواہش مند ہیں تو ایسے میں ملک کی متاثرہ صحافتی برادری آپ کے ہر مثبت قدم کو سراہتے ہوئے توقع کرتی ہے کہ نئے اداروں میں بے روزگار اور مستحق افراد کو نوکریاں دے کر اس طبقے کا احساس محرومی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کپتان کے منشور اور وعدے کے مطابق ایک کروڑ افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے جس کے بعد اُمید کی جاسکتی ہےکہ بول سے ٹھُکرائے گئے سینکڑوں ملازمین کو دیگر چینلز میں عزت اور ذہنی سکون کے ساتھ مستقل بنیادوں پر روزگار دے کر ان کے مسائل کا سد باب کیا جائے گا۔ نئے چینلز ضرور لائیں لیکن ذرا ان کی بھی خبر لیں جو آئے دن ملازمین کے معاشی استحصال میں ایک دوسرے سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ جہاں ایک طرف ملک میں نئے جمہوری ماحول کی تازہ ہوا چل پڑی ہے وہیں میڈیا مافیا کے ہاتھوں برسوں سے ستائے صحافی اس نگری میں بھی مثبت تبدیلی کے متمنی ہیں اور یہ تبدیلی حکومتی دلچسپی اور فیصلوں کے بغیر ممکن نہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہی کہ ملک کے چند میڈیا ہاؤسز کے زیر عتاب میڈیا پرسنز دہرے عذاب کا شکار ہیں ۔ ماہانہ تنخواہوں میں تاخیر کے ساتھ جبری برطرفی اور ہتک آمیز سلوک ہر دوسرے ادارے کا شیوہ بن گئی۔ سوشل میڈیا پر ہر گذرتے روز کے ساتھ متاثرین کی دکھی داستانیں رقم ہورہی ہیں جو ہر طبقے کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ یقینا یہ مسؑلہ آپ کی نگاہوں سے بھی اوجھل نہیں ہوگا۔میری آپ سے درخواست ہےکہ میڈیا ورکرز کے مسائل،میڈیا مالکان کی نا انصافیوں کا بھی نوٹس لیں ۔ سرکاری ٹی وی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور نئے چینلز کھولنے کے اعلانات بلاشبہ قابل تعریف ہیں لیکن جو چینلز اس وقت سینکڑوں ملازمین سمیت میڈیا سائنسز کے طلبا کا مستقبل کو داؤ پر لگا چکے ہیں ان اداروں کے مالکان کے گرد گھیرا تنگ کریں ۔ میڈیا کو کرپٹ عناصر سے پاک کریں ۔ اشتہارات اور ریٹنگ کا رونا رونے والے بول نے ہمیشہ دیگر چینلز مالکان پر ملازمین کے استحصال کے الزامات عائد کئے۔ اس سیٹھ کو توہین عدالت کی سزا اب مل جانی چاہیے۔ملک کی بڑی آبادی براہ راست اس ادارے سے مسلسل دو برس سے متاثر ہورہی ہے ۔ عوام، بول متاثرین کی تعداد میں روز بہ روز اضافے کو روکنے کےلیے حکومتی سطح پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔ڈیڈ لائنز گذرنے کے باوجود بول سمیت دیگر اداروں میں ملازمین اپنے حقوق سے تاحال محروم ہیں ۔ حقوق کی بات کرنے والوں کے سروں پر ملازمت سے برطرفی کی تلوار کب تک لٹکتی رہے گی؟ بول متاثرین کو واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ کیا بنی؟ کئی ماہ کی تنخواہیں دبانے والے گروپ نے جعلی ایفی ڈیوٹ داخل کروا کر عدلیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔عوام جاننا چاہتی ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے نوٹس لینے کے باوجوہ معاملہ تاحال تاخیر کا شکار کیوں ہے؟ عوام سوال کرتی ہےکہ اس گروپ کے نا خداؤں کے خلاف کارروائی آخر کب ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).