ضرب الولڈرز، شاندار نمائش جاری ہے۔


“اکتیس اگست 2018، جمعہ کا مبارک دن شروع ہوچکا تھا جب یہ روح پرور خبر آئی کہ منحوس ہالینڈ کے ملعون ولڈرز نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ خبر سن کر بے پناہ مسرت ہوئی کہ علامہ گالم سری اور زمانہ حاضر کے ماڈرن و مذہبی (اپنے لئیے ماڈرن دوسروں کے لئیے مذہبی) جیسے منفرد امتزاج کے حامل امیرالمومنین عمران خان نے امت مسلمہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو درپیش سب سے سنگین غزوہ میں فتح حاصل کر لی ہے۔”

جی نہیں یہ میرے نہیں یہ تو ایک سچے مسلمان و عاشق رسول(ص) اور محب الوطن پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ میرے خیالات اس معاملے میں تھوڑے مختلف ہیں۔ خیالات جو بھی ہوں ضرب الولڈرز میں شاندار کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد تو بنتی ہے۔ مگر چونکہ یہ موضوع ابھی فریقین کے درمیان زیر غور ہے کہ مبارکباد کا اصلی حقدار کون ہے اور دشمن کو چاروں خانے چت کرنے کا سہرا کس کے سر بندھنا ہے تو ہم اپنی مبارکباد کو تھوڑا موخر کئیے دیتے ہیں۔ ولڈرز کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تکلیف میں ہیں اور وہ ہیں ہم لبرل۔ جس کسی نے بھی ہم کو لنڈے کے لبرل کا خطاب دیا ہے کافی خوب دیا ہے۔ کیا ہے کہ دنیا کے حقوق کا درد تو ہم دل میں لئیے پھرتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کے حقوق اور دل آزاری کا معاملہ آتا ہے تو چاہے فرانس میں پردہ کرنے کی پابندی ہو یا چائنہ میں روزے رکھنے کی ہم کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ علامہ گالم سری اگر پنجابی میں گالی بکے تو وہ ہیٹ اسپیچ اور ولڈرز انگریزی میں بکے تو وہ فریڈم آف اسپیچ۔ ہم بحیثیت سوسائٹی موقع محل کے لحاظ سے لبرل اور روشن خیال ہوتے ہیں۔ بات اگر اصول کی ہو تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی غیر مسلم اور ملحد کے جذبات کا ذاتی حیثیت میں اختلاف کرتے ہوئے بھی احترام کرنا۔

اس پیمانے سے ولڈرز کی یہ حرکت آزادی اظہار سے زیادہ نفرت کے کاروبار کے مترادف لگتی ہے جس کی نشوونما کا دارومدار اس نفرت کو ملے ہوئے ردعمل پر ہوتا ہے۔ اور یہ نشوونما یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ ولڈرز کے ساتھ ساتھ مزہب کا کاروبار کرنے والے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ جس دن رد عمل ملنا بند ہوجائے گا اس دن مذہب بیچنے والوں کی دکان بھی بند ہوجائے گی اور ولڈرز نامی فتنہ بھی دم توڑ جائے گا جس کو بلاوجہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ اپنے مذہب کو بدنام کرنے کا بیڑہ جب ہم نے خود اٹھایا ہوا ہے تو اس کو یہ تماشا لگانے کی کیا ضرورت سوائے وہی توجہ حاصل کرنے کے مسئلے کے؟

انصاف کی بات یہ ہے کہ حضور محمد(ص) کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہیں اور جتنی گستاخی رسول (ص) ہم خود کرتے ہیں کوئی غیر مسلم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیسا اسلام اور کون مسلمان؟ وہ جو دن میں گلا پھاڑ پھاڑ کہ نعتیہ کلام پڑھتے ہیں اور رات کے اندھیروں میں زینب کی چیخوں کا گلا گھونٹتے ہیں، جس کی حفاظت پر مامور کئیے جاتے ہیں اس کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں، فلسطین کشمیر پر آنسو بہاتے ہیں اور مغیث، منیب، مشعال کو زندہ سنگسار کردیتے ہیں، حضرت علی(ر) کو مشعل راہ مانتے ہیں مگر علم و عقل کو اسلام دشمن گردانتے ہیں، حضرت حسن(ر) و حسین(ر) کو لیڈر مانتے ہیں اور ساتھ ہمیشہ یزید کا دیتے ہیں، مثالیں حضرت ابو بکر (ر) و عمر (ر) کی دیتے ہیں اور اعمال ابو جہل والے کرتے ہیں۔ ہر سال حج عمرہ کرتے ہیں ساتھ ساتھ دن رات حقوق العباد سے روگردانی کرتے ہیں (اسلام میں حقوق العباد کا کہا گیا ہے نا کہ حقوق المسلمین کا اور آنحضرت محمد ص رحمت اللعالمین تھے نا کہ رحمت اللمسلمین)۔ یہ اسلام نہیں ہے بلکہ ہمارے قول و فعل کے اس تضاد والے مذہب کا نام استحصال ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان نہیں منافق ہیں۔

درخواست ہے کہ کوشش کرکے اسوہ حسنہ کے بارے میں بھی پڑھ لئیے گا کیوں کہ واقعی شرم کا مقام ہے۔ پیغمبر (ص) رحمت، مسلمانوں کے لیے بھی اور غیر مسلموں کے لئیے بھی، انسانوں کے لیے بھی اور جانوروں کے لیے بھی۔ جبکہ امتی زحمت، مسلمانوں کے لیے بھی اور غیر مسلموں کے لیے بھی، انسانوں کے لیے بھی اور جانوروں کے لیے بھی۔ تب تک کے لئیے تمام زبانی کلامی لبرلوں اور زبانی کلامی عاشقان رسول(ص) کو دل کی گہرائیوں سے ضرب الولڈرز کی شاندار کامیابی اور اس کی بھرپور نمائش کی مبارکباد، ایک گروہ کو تمام مسلمانوں کو انتہا پسند لیبل کرنے کا نادر موقع ہاتھ آگیا ہے اور دوسرے گروہ کو پہلے گروہ کے تمام تر الزامات کو سینا ٹھونک کر ثابت کرنے کا۔ سب کے سب لگے رہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).