پاکستانی سینما کے بدلتے دور


پاکستان میں فلمیں اب ڈراموں کے بجائے فلمیں لگنا شروع ہوگئی ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے اس وقت کا انتظار تھا کہ کب پاکستان میں سینما گھروں میں رونق لگےاور سینما کے پردوں پہ ہم اپنی کہانیاں دیکھیں اور سنیں۔ ہماری مہندیوں میں اپنی دھنیں گونجیں اور ہمارے لکھاری، ہدایتکار، اداکار، موسیقار اپنی زبانوں اور مزاح بھرے جملوں سے محفل لوٹ لیں۔ عجیب دور تھا جب زبردستی سر پہ دوپٹہ پہنا پہنا کے خواتین کو دشت میں دوڑایا جاتا تھا، سوتے اُٹھتے بیٹھتے، منہ میں زبان ہو نہ ہو، سر پہ دوپٹہ ضرور ہوتا تھا۔

خدا خدا کر کے ”خدا کے لئے“ منظر عام پہ آئی تو لیکن شعیب منصور بہت کچھ کہنے کے چکر میں چکّر دے گئے۔ پھر ”بول“ اور اس کے بعد ”ورنہ“ بھی آئی جو سماج سدھار کے جذبے سے بھرپور تھی۔

بیچ میں ایک آدھ فلموں نے بزنس کرنے کی کوشش کی اور کچھ حد تک کامیاب بھی رہیں جیسے جاوید شیخ کی ”یہ دل آپ کا ہوا“ یا ”چلو عشق لڑائیں“ جنہوں نے بظاہر تو فلم کی پروڈکشن اور ترتیب میں بہتری کی نشاندہی کی۔ البتہ شان شاہد ”موسیٰ خان“ جیسی فلمیں کرتے رہے اور اداکارہ میرا ”ایک گناہ اور“ جیسی فلمیں کرتی رہیں۔ بیچ میں ہمایوں سعید نے ”پیسہ وصول“، ”میں ہوں شاہد آفریدی“ اور صبیحہ ثُمر نے ”خاموش پانی“ جیسی ایک شاہکار فلم بنائی مگر ہمیں شاہکار نہ دیکھنے کی عادت تھی نہ سمجھنے کی۔

2007 میں آئی ”خدا کے لئے“ اور 2008 میں آئی ”رامچند پاکستانی“ جو مہرین جبار نے بنائی۔ ”وحشی گُجر“ اور ”گجر بادشاہ“ جیسی فلمیں بھی بن رہی تھیں لیکن سینما گھروں کا رجحان بھی بدل رہا تھا۔ عوام کیپری، بیمبینو، نشاط کے بجائے نئے نویلے مالز اور خوبصورت اور جدید ترین سینما گھروں میں جانے کے عادی ہونا شروع ہوگئے تھے، جس سے ”سنگل پلیکس“ اور ”ملٹی پلیکس“ ناظرین کا فرق بھی ظاہر ہونا شروع ہو رہا تھا۔

معاشرے میں جب ایک طرف ”وحشی گجر“ ہو اور دوسری طرف ”خاموش پانی“ ہو تو سینما کو اپنی شانخت ڈھونڈنے میں وقت تو لگتا ہی ہے۔ نامعلوم افراد، زندہ بھاگ، بول، دختر، وار ریلیز ہوئیں اور حالات میں واقعتاً تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ 2015 میں بن روئے، جوانی پھر نہیں آنی، مور، جلیبی، رانگ نمبر، کراچی سے لاہور، منٹو اور شاہ ریلیز ہوئیں اور تقریباً سب نے اپنے تئیں عزت اور کچھ حد تک پیسہ بھی کمایا۔ 2016 سے لے 2018 کا عرصۂ مجھ ناچیز کی نظر میں سب سے زیادہ معانی خیز ثابت ہوا، کیونکہ اس عرصے میں ایکٹر ان لا، جانان، پنجاب نہیں جاؤں گی، ورنہ، کیک، پرواز ہے جنوں، جوانی پھر نہیں آنی اور نامعلوم افراد کے دوسرے حصے اور لوڈ ویڈنگ جیسی فلمیں منظر عام پہ آئیں۔ دریں اثناء انگلستان میں بھی ایک اردو زبان کی فلم ”میری پاک زمین“ بھی بنی جو آسکرز میں انگلستان کی ایک بیرونی زبان کے زمرے میں نامزد کی گئی فلم تھی۔ موٹر سائکل گرل، ساون اور سات دن محبت ان میں بھی کافی مواد نظر آیا جو کے پاکستانی فلموں کے حساب سے ایک روشن مستقبل کی دلیل دیتا ہے۔

پاکستانی سینما اور پاکستانی معاشرہ دونوں ہی اپنی شناخت ڈھونڈ رہے ہیں اور شاید آہستہ آہستہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ فلم کا پردہ ویسے بھی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے لہٰذا ندیم بیگ کی فلم میں جب ہیروئن کو تھپڑ پڑتا ہے تو عوام اس پہ کچھ زیادہ شور نہیں مچاتے۔ اس لئے کیونکہ ایک سروے کے مطابق پاکستانی حضرات اکثر و بیشتر بیوی کے حکم بجا نہ لینے پہ ”ہلکا پھلکا تشدد“ کو کچھ غلط نہیں گردانتے۔ وہیں پرواز ہے جنوں، وار، یلغار، ایک اور غازی اور آپریشن زیرو ٹو ون جیسی فلمیں بنانے میں کسی کو کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ جو کہ ایک قابل قبول بات ہے کیونکہ بنانے والا وہی بنائے گا جو دیکھنے والا دیکھنا چاہے گا۔

بھیڑ چال میں موجود ہر شخص ہی اب ایک دوڑ میں پھنستا چلا جا رہا ہے جو فری مارکیٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قطعاً غلط نہیں کیونکہ جتنا مقابلہ سخت ہو گا اتنا ہر انسان بہتر سے بہتر سامان اور مواد بنانے کی کوشش کرے گا۔ کروڑوں روپیوں کی فلم بنا کے ضروری یہ بھی ہے کہ کروڑوں روپیہ واپس بھی ملے۔ ورنہ کسے پڑی ہے ہیرو کو درخت سے لٹکانے کی اور ہیروئن کو بارش میں نچوانے کی۔

کمرشل مسالہ سینما میں کوئی مضائقہ نہیں مقصد یہ کہ مساوی بیانیے میں وہ کہانیاں بھی پھلتی پھولتی رہیں جن سے معاشرے میں سدھار کا رجحان پیدا ہو۔ مثال یہ کہ جہاں ایک طرف جوانی پھر نہیں آنی بن رہی ہو وہیں لوڈ ویڈنگ جیسی فلمیں بھی پنپ رہی ہوں۔ جہاں ہیرو کی کہانی کو خوب پذیرائی ملے وہیں خواتین کے حوالے سے بھی فلمیں بنائی جائیں جہاں خواتین کا فلم میں محض بارش میں ناچنا ہی کام نہ ہو۔ بلکہ فلم ”کیک“ کی طرح خواتین ڈٹ جانے والی ہوں اور دنیا سے لڑنے والی ہوں۔ جہاں پرواز ہے جنوں ایک غازی کی قربانی کو سراہتا ہو وہیں ورنہ جیسی فلم بھی بنائی اور دکھائی جائے جس میں عورت یہ جملہ کہے کہ میں ایک انسان ہوں۔

بات سیدھی اور آسان ہے۔ مگر یہی بات بار بار دہرانی پڑتی ہے اور سینما کے توسط سے سمجھانی بھی ضروری ہے۔ فلم لوڈ ویڈنگ میں جہیز جیسی لعنت کے بارے میں جس طرح عوام الناس کو با آسانی اور چبھتے ہوئے طریقے سے دکھلایا گیا ہے کہ کیسے شادی کو ایک رشتہ کم اور ایک بیوپار بنا دیا گیا ہے، ایسے سین بننا اور ایسے سین دکھنا اور مسلسل دکھنا ہی معاشرے میں سدھار کا باعث بن سکتے ہیں۔

پاکستانی سینما کا ایک سنہرا دور دوبارہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ بہت سے کم عمر اور ٹیلنٹڈ لوگ آگے آ رہے ہیں اور ہمیں ایسی کہانیاں سنانا چاہتے ہیں جو ہماری کہانیاں ہیں۔ جن سے ہم نہ صرف فطری طور پہ اپنا سکتے ہیں بلکہ کئی نئے افکار کو بھی دعوت دے سکتے ہیں جو آرٹ اور سینما کا بالاخر مقصد ہوتا ہے۔ خدا کرے کہ یہ دور پاکستانی کہانیوں اور سینما کو مذید سربلندی عطا کرے اور اسے پھر کبھی اندیشۂ زوال نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).