چینی قرضے افریقہ کے لیے فائدے مند یا نقصان دہ


چینی ورکرز

چین اِس وقت افریقہ میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے

افریقی ممالک میں چینی قرضوں کی بڑی کھپت دکھائی دیتی ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ ممالک اِن قرضوں پر اتنا زیادہ انحصار کر رہے ہیں کہ معاشی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔

یوگینڈا میں انٹیبے کمپالا ایکسپرس وے، جو 476 ملین ڈالر میں ایک چینی کمپنی نے تعمیر کی ہے، ملک کے دارالحکومت کو انٹیبے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے جوڑتی ہے۔ اِس چار رویہ سڑک کی تعمیر کو تین مہینے ہو چکے ہیں لیکن آج بھی یوگینڈا میں سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔

اِس ایکسپرس وے کی وجہ سے دو گھنٹے کا ایک بہت ہی تکلیف دہ سفر کم ہو کر صرف 45 منٹ کا ایک خوبصورت سفر بن گیا ہے۔

یوگینڈا چین سے تین ارب ڈالر کا قرضہ لے چکا ہے جو اِس مجموعی رحجان کا حصہ ہے۔ کئی معاشی ماہرین کے مطابق افریقہ غیر مشروط طور پر سرمائے کے حصول کے لیے اِس وقت جس طرح آمادہ دکھائی دیتا ہے اِس کی مثال نہیں ملتی۔

افریقہ

افریقی ممالک ایک مرتبہ پھر قرضوں کی عدم ادائیگی کے خطرے سے دوچار ہیں

میکیریری یونیورسٹی بزنس سکول کے لیکچرر رماتھان گوبی کا کہنا ہے ‘یہ جو قرضہ چین سے لیا جا رہا ہے چینی کمپنیوں کو وسیع کاروبار مہیا کر رہا ہے خاص طور پر تعمیراتی کمپنیوں کو۔ اِن کمپنیوں نے پورے افریقہ کو ریلوے، سڑکوں، بجلی، ڈیموں، سٹیڈیم، اور کمرشل عمارتوں کی تعمیراتی سائٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔’

ایک طرف تو چین سے قرضے لینے کا سلسلہ جاری ہے لیکن دوسری طرف افریقی ممالک ایک مرتبہ پھر قرضوں کی عدم ادائیگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اِن ممالک کو تقریباً دس برس قبل اِسی صورتحال کا سامنا ہو چکا ہے۔ اُس وقت قرضے معاف کر دیے گئے تھے۔

اِس برس اپریل میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) خبردار کر چکا ہے کہ اِس وقت خطے میں کم از کم چالیس فیصد غریب ممالک کو قرضوں کے بوجھ یا عدم ادائیگی کے خطرے کا سامنا ہے۔

2017 کے اواخر تک چاڈ، اریٹریا، موزمبیق، کانگو، جنوبی سوڈان اور زمبابوے کو قرضوں کے بوجھ سے متاثر ممالک قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ زیمبیا اور ایتھیوپیا کی صورتحال اِس سے بھی خراب بتائی گئی تھی۔

سٹینڈرڈ بینک میں چین کی معیشت کے ماہر جیریمی سٹیونز کا کہنا ہے ‘صرف 2017 میں افریقہ میں جن نئے چینی منصوبوں پر دستخط کیے گئے ہیں اُن کی مالیت ساڑھے 76 ارب ڈالر ہے’

جیریمی سٹیونز کے مطابق خدشہ یہ ہے کہ افریقی ممالک میں قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بہت جلد ختم ہو جائے گی۔

پورے افریقہ میں پیسے کا اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ چمکتے ہوئے نئے نئے ائیرپورٹ، سڑکیں، بندرگائیں اور اونچی اونچی عمارتوں کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں جن کی افریقہ کو اشد ضرورت ہے۔

میکینزی اینڈ کمپنی کے ایک تجزیے کے مطابق 2012 کے مقابلے میں اِس وقت افریقہ کے لیے چین کے قرضوں کی مقدار تین گنا بڑھ گئی ہے جس میں وہ 19 ارب ڈالر بھی شامل ہیں جو 2016 میں صرف انگولا کو دیے گئے۔

بغض ماہرین کا موقف ہے کہ چین میں بیرونِ ملک رشوت دے کر کانٹریکٹ حاصل کرنے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے۔ ایسے قوانین امریکہ اور یورپ میں موجود ہیں۔ تاہم نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت جوزف سٹیگلٹز کے مطابق بدعنوانی کے بارے میں تشویش اپنی جگہ لیکن چین پر مغربی نکتہ چینی ‘انگور کھٹے ہیں’ کے مصداق ہے۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چاہے وہ کسی مغربی ملک کا منصوبہ ہو یا چین کا، ہر منصوبے کو منافع کی شرح کے لحاظ سے چانچنا چاہیے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ یہ افریقی ممالک کی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ زیادہ شفاف ہوں۔

افریقہ میں چینی سرمایہ کاری کے بہت سے حمایتی بھی موجود ہیں جن میں افریقن ڈولپمنٹ بینک کے سربراہ آکینیومی ایڈیسینا بھی شامل ہیں۔ ‘بہت سے لوگ چین کے بارے میں پریشان ہیں لیکن میں نہیں ہوں۔ میرے خیال میں چین افریقہ کا دوست ہے۔’

چین اِس وقت افریقہ میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ افریقن ڈولپمنٹ بینک، یورپی کمیشن، یورپی انویسٹمنٹ بینک، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن، ورلڈ بینک اور جی ایٹ ممالک سے زیادہ سرمایہ کاری چین کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp