کچھ نئی اور دلچسپ وزارتیں


یوں تو ہر نئی حکومت ضرورت،مصلحت یا شوق کی خاطر کچھ نئی وزارتیں متعارف کرواتی ہے،تاکہ کاروبار حکومت بھی چلتارہے اور اتحادی بھی خوش رہیں۔ بعض اوقات صورت حال اس قدر گمبھیر اور عجیب و غریب ہو جاتی ہے کہ ناراض اتحادیوں کو منانے کے لیے ایک وزارت کو تین وزارتوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ اپنے تئیں بہت سی وزارتیں متعارف کروا کر ان پر شاہین صفات اور سیمابی قسم کے وزیروں کو لا بٹھایا ہے جو حسب توفیق اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر رہے ہیں۔ مگر خبریں آ رہی ہیں کہ کچھ اتحادی وزارتیں نہ ملنے پر سخت نالاں ہیں اوراعلانیہ و خفیہ یہ شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ ہم حکومت میں وزارتوں کے مزے لوٹنے آئے تھے، تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے نہیں آئے تھے۔ اس صورت حال نے انقلابی وزیر اعظم کو بہت پریشان کر رکھا ہے کیونکہ وزارتوں کے طلب گار بہت زیادہ ہیں اور وزارتیں محدود ہیں۔ یعنی ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہے۔ ان کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے ہم نے کچھ نئی اور دلچست وزارتوں کی فہرست بنائی ہے،جناب وزیر اعظم ان کے لیے موزوں امیدواروں کا انتخاب کرکے انہیں یہ وزارتیں عطا کر سکتے ہیں
وزارت چمچہ گیری،چاپلوسی و خوشامد:اس کام میں اگرچہ یہ حکومت اچھی خاصی خود کفیل ہے کیونکہ اس کے سربراہ کے پاس مقتدر قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور انہیں خوش کرنے کا وسیع تجربہ موجود ہے مگر حکومت میں آنے کے بعد دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ یہ کام پہلے کی طرح دلجمعی اور عرق ریزی سے نہیں کر پا رہے۔ لہذا فوری طور پر یہ وزارت قائم کر کے کسی اہل آدمی کو اسے سونپا جائے تاکہ امور مملکت چلانے میں خاطر خواہ آسانی پیدا کی جا سکے۔ خوشامد کے حوالے سے شاعر مشرق بھی برملا یہ نصیحت کر چکے ہیں کہ
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

وزات سب و شتم و گالم گلوچ:فیاض الحسن چوہان،فواد چودھری اور مراد سعید وغیرہ جیسے گفتار کے غازیوں کے ہوتے ہوئے اس وزارت کی کوئی خاص کمی محسوس نہیں ہوتی تاہم یہ جز وقتی نہیں کل وقتی کام ہے۔ سیاسی مخالفین کو ہمہ وقت بے نقط سناتے رہنا از حد ضروری ہے تاکہ ان کے کم از کم چودہ طبق تو روشن رہیں۔ اس وزارت کے جی داروں کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آنی چاہیے کہ مخالفین انہیں کن کن القابات سے نوازیں گے۔ اگرکوئی دریدہ دین س طرح کی ہرزہ سرائی کرتا ہے

لگے منہ بھی چڑانےدیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

تو انہیں اس طعنہ زنی کی ہر گز پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ان کے بد زبان اور گستاخ ہونے کی نہیں اپنے قائد سے وفاداری بشرط استواری کی بین دلیل ہو گی۔
وزارت ناؤ نوش و مسکرات: ویسےتو یہ وزارت ہر حکومت میں بڑی فعال رہی ہے کیونکہ وزرا اکثر “شہد” کے اثر کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے حقائق سے بے بہرہ قسم کے لوگ شہد جیسی پاکیزہ شے کو مزموم و منظم سازش کی وجہ سے پتہ نہیں کیسے کیسے ہوش ربا ناموں سے پکارتے ہیں۔ لیکن اس وزارت کے باقاعدہ آغاز کے بعدایسی تمام گھناؤنی سازشیں دم توڑ دیں گی اور مخالفین و حاسدین کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ نیز اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ کچھ مجبور بیماروں کو شفاخانے کو مے خانہ نہیں بنانا پڑے گا۔ ہرطرف سے مستی میں ڈوبی ہوئی اس طرح کی آوازیں آیا کریں گی

ساقیا!ہے یہ جام کا عالم
جیسے ماہ تمام کا عالم

وزارت تھپڑ مکا و مار کٹائی: پچھلی حکومت میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے موجودہ حکومت کے بہت سے نمائندوں نے اس کی خاطر خواہ مشق کر رکھی ہے۔ نعیم الحق اور مراد سعید جیسے لوگ پاس سے گزر بھی جائیں تو مخالفین کا تراہ نکل جاتا ہے۔ جب یہ کام ایک باوقار وزارت کے زیر سایہ منظم انداز سے چلایا جائے گا تو باہم منقسم اور ایک دوسرے سے دست و گریبان اپوزیشن کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ ہر ایک کو اپنی جان اور عزت کے لالے پڑ جائیں گے اور حکومت بڑےآرام سے اپنی مدت پوری کر لے گی۔

وزارت ہاؤ ہو و شور شرابہ:اس وزارت کی اہمیت یوں مسلم ہے کہ ہر حکومت کی طرح اس حکومت نے بھی کام کی جگہ صرف وعدےوعید ہی کرنا ہیں اوراس شور شرابے میں ان کی کارکردگی پر پردہ پڑارہے گا۔ جب کوئی شہری اس حکومت سے اس کے وعدوں اور دعوں کے بارے میں استفسار کرےگا تو وہ بر ملا بقول ناصر کاظمی یہ کہہ سکے گی

تیرے وعدے میرے دعوے
ہوگئےباری باری مٹی

وزارت اتہام و الزام تراشی:اپوزیشن میں رہتے ہوئے موجودہ حکومت کے کار پردازوں نے الزام تراشی اور بہتان بازی میں کمال کی مہارت حاصل کی ہے۔ چنانچہ اب اگر اپوزیشن کا کوئی حرماں بخت لیڈر یا کارکن ان پرکسی نوع کا الزام لگانے کی کوشش کرے گا تو وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتےہوئے اس کی کماز کم سات گذشتہ اور اتنی ہی آئندہ پشتوں کو بیچ چوراہےننگا کر کے نئے پاکستان کی تعمیر میں جت جائیں گے۔
وزارت یو ٹرن و لم لیٹ:یوں تو یہ وزارت ہماری تمام حکومتوں کاٹریڈ مارک رہی ہے کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جو کام پھولوں کی سیج دکھائی دیتے ہیں حکومت میں آنے کے بعد وہ کانٹوں بھرابستر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم یہ حکومت پہلے پندرہ دن میں جس طرح پے در پے اندرونی اوربیرونی محاذ پر یو ٹرن پہ یو ٹرن لے چکی ہے اسے دیکھتے ہوئے اسے تین چار تگڑے وزیروں کی ضرورت ہے جو اس بھاری بھرکم بوجھ کواٹھا سکیں۔ اس حکومت کی کہہ مکرنیاں اور عہد شکنی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اردو اور فارسی شاعری کے روایتی محبوب کی بے وفائی اور وعدہ خلافی بھی اس سب کے سامنے ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ شاعر کو تو محبوب سے یونہی شکوہ تھا

کہوں کیا اس کےوعدےکی حقیقت پوچھتے کیا ہو
وہی شام و سحر ہےاور وہی امروز و فردا ہے

وزارت مخولیات و مسخریات:ویسے تو چاروں صوبائی اور ایک عدد مرکزی وزیر اطلاعات و ترجمانوں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے اس وزارت کی چنداں کمی محسوس نہیں ہوتی لیکن حکومت کاکام اس حوالے سے اس قدر ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے کہ اس وزارت کےلیےایک دو نہیں بیسیوں وزیران بے تدبیروں کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت مختصر سے عرصے میں ٹھٹھہ،مخول،پھکڑ پن،مذاق اور ہاسے و مسخرے پن کے اتنے مظاہرے کرچکی ہے کہ امریکی اور فرانسیسی حکومت بھی ہنس ہنس کے دوہری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ممکنہ وزارتیں ہیں جن کا قیام اس حکومت کی مضبوطی اور استحکام کی توانا دلیل بن سکتا ہے۔ مگر فی الحال اتنا ہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).