کتنی جلدی یہ ملاقات گزر جاتی ہے


حاسدین اور مخالفین،جنہیں انقلابی اور نئے پاکستان کے بانی جناب عمران خان سے خدا واسطے کا بیر ہے;آرمی چیف سے ان کی ایک ہی ہفتے میں تین ملاقاتوں پر بھی ناک بھوں چڑھا رہےہیں ۔حالانکہ مثالی جمہوریت میں کسی بھی وزیر اعظم کا آرمی چیف سے ملتے رہنا قطعی طور پر کوئی قابل اعتراض اور معیوب بات نہیں ہے۔ملک اور نوزائدہ جمہوریت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔سامراجی اور استعماری طاقتیں ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہیں۔

امریکہ نے ہمارے فنڈز روک لیے ہیں۔ازلی دشمن بھارت افغانستان میں بیٹھ کر ہمیں ہدف بنا رہا ہے۔ایسے میں اگر جناب وزیر اعظم زیر لب گنگناتے ہوئے
زندہ رہنے کے لیے تیری قسم
اک ملاقات ضروری ہے صنم

آرمی چیف کو ملاقات کے لیے طلب کرتے یا ان کےآستانے پر مہمان بن کر جاتے ہیں اور کئی گھنٹوں تک ملک کودرپیش خطرات و چیلینجز پر سیر حاصل تبادلہ خیال کرتے ہیں تو اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟جہاں تک ازلی دشمن بھارت کی ریشہ دوانیوں اور گھناؤنی سازشوں کا تعلق ہے تو اس کا توڑ بھی ہمارے مقتدر اداروں نے ڈھونڈ نکالا ہے اور اپنی فوج کو شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام روس بھیجا ہے جہاں وہ روسی اور بھارتی افواج سے مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کی مشق بہم پہنچائے گی۔

آخر ہمارے امن پسند اور عالمی اخوت و بھائی چارے کے ترجمان آرمی چیف نے وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کو محبت بھری جپھی مار کر تعلقات بہتر کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کا واضح عندیہ بھی تو دیا ہے۔نئے پاکستان کے بانی نے بھارت کے ایک قدم کے بدلے دو قدم آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ ظاہر کیا ہے۔پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے بھارت سے دوستی کی خواہش ظاہر کر کے عالمی امن کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی کا بھی ثبوت دیا ہے۔البتہ یہی کام ماضی میں اگر نواز شریف نے کیاہے تو ہم اس کی تحسین اس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ غدار،ملک دشمن اور مودی کا یار تھا۔

خیر بات ہو رہی تھی نئے پاکستان کے بانی کی ایک ہفتے میں تین مرتبہ آرمی چیف سے ملنے کی جس کی وجہ سے منہ پھٹ حاسدین اور حریفان کشاکش کے پیٹ میں پتہ نہیں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟یہ ملاقاتیں اور لمحات وصال تو جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کا ذریعہ ہیں تاہم ماضی میں اگر نواز ،شہباز ایسے کام کرتے رہے ہیں تو وہ سو فیصد جمہوریت کے خلاف گھناؤنی سازش تھی۔

انقلابی وزیر اعظم کا مقتدر حلقوں اور شخصیات سے ملاقات کااضطرابی و سیمابی انداز ہم دھرنے کے دنوں میں بھی دیکھ چکےہیں کہ جب وہ بڑے تیقن اور وثوق سے امپائر کی انگلی اٹھنے کی نوید سنایا کرتے تھے۔تب “امپائر”نے جب انہیں ملاقات کے لیے بلایا تو وہ اردو اور فارسی شاعری کے روایتی عاشق کی طرح نہایت جذباتی نظر آ رہےتھے۔وفور شوق کی روشنی ان کے چہرے سے ہویدا تھی،جو جذبات کی وجہ سے گلنار بن چکا تھا اور لبوں پر بقول شاعر یہ کلمات تھے۔
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر جی چاہتا ہے کیا کیاکچھ

اگر ملاقاتوں کا یہی تناسب اور انداز رہا تو پانچ سال میں دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں نہ ٹوٹنے والا ریکاڑڈ بن جائےگا۔نئے پاکستان کے بانی کے دل میں آغاز محبت میں اضطراب و ہیجان کا متلاطم دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔جس طرح اردو و فارسی شاعری کا روایتی عاشق بے کلی سے کوئے بتاں کا طواف کرتے ہوئے یہ راگ الاپتا ہے کہ
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

بالکل یہی کیفیت جناب وزیراعظم کی بھی ہے۔ادھر آرمی چیف بھی ہر وقت جناب عمران خان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے رہتے ہیں۔یعنی دونوں طرف ہے آگ برابرلگی ہوئی۔ ان ملاقاتوں کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بانیئ نئے پاکستان کو گھڑی گھڑی ملک و قوم کی بہتری کے لیے رنگا رنگ اور خوبصورت خیالات ذہن میں آتے ہوں اور وہ جوش مسرت اور وفور شوق میں عاشق مضطرب کی طرح انہیں دوڑ دوڑ کر جا کے بتانے پرمجبور ہوں
آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

حاسدوں ،فتنہ گروں اور سیاسی نوحہ گروں کے منہ بند کرنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ آرمی چیفپ پہلی ملاقات میں ہمارے ہردل عزیز وزیر اعظم کو جادوکی چھڑی کے بغیرملے تھے۔یہ الگ بات ہےکہ دوسری اور تیسری ملاقات میں یہ چھڑی ان کے ہاتھ میں تھی۔ حاسدوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ چھڑی ہاتھ میں رکھنابھی ہمارے لیے باعث شرف و اعزاز ہے اور نہ رکھنا بھی باعث صد افتخار ہے۔کہتے ہیں کہ اچھا وقت جلدی گزر جاتا ہے اور برا وقت ٹھہر جاتا ہے۔

ہمارے نئے پاکستان کے بانی کے بھی ملاقات کےآٹھ آٹھ گھنٹے پلک جھکتے ہی گزر جاتے ہیں اور جدائی کی گھڑیاں صدیاں بن جاتی ہیں۔ہجر و فراق کی تلخی کسی حد تک ملٹری سیکرٹری کے آستانے میں قیام کرنے سے کم ہو جاتی ہو گی مگر یہ فراق اب بھرپور اور توانا وصال مانگتا ہے۔ہم ارباب معرفت سے گزارش کریں گے کہ وہ کوئی ایسا مؤثر انتظام کریں کہ من و تو کا دائمی وصال ہو جائےورنہ یہ مختصر سی ملاقات تو تشنگی میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہے بقول شاعر
پیاس بجھتی نہیں برسات گزر جاتی ہے
کتنی جلدی یہ ملاقات گزرجاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).