نیا پاکستان، کرشماتی پاکستان


اسلامی جمہوریہ پاکستان نیا ہو یا پرانا، اس کا کرشماتی ہونا اس کیایک ایسی خاصیت ہے جو دایمی بھی ہے اور دوامی بھی، کرشمے اس کے انگ انگ سے ٹپکتے رہتے ہیں۔ اب نئے پاکستان ہی کو لے لیجئے جس کی ابھی بنیادیں بھری جا رہی ہیں، جہاں انصاف کا نعرہ لگا کر ایوانِ اقتدار میں پہنچنے والی پارٹی تحریکِ انصاف نے اپنے قانون ساز، رکنِ صوبائی اسمبلی عمران شاہ کو ایک شہری کو زدوکوب کرنے کی پاداش میں پہلے معطل کرکے تبدیلی کے منتظر عوام سے واہ واہ وصول کی، پھر مزید واہ واہ کے لئئے اسے مبلغ پانچ لاکھ سکہ رائج الوقت ایدھی سینٹرکو عطیہ کرنے کے جرمانے کی سزا سنادی تاکہ ایدھی سنیٹر میں پڑے بے یارو مددگار افراد سے دعائیں دلائی جا سکیں۔

نئے پاکستان کی خالق تحریکِ انصاف کی اس انصاف پسندی پراسی پاکستان کی عدلیہ سبقت لے گئی، جس کے قاضی نے اس قانون ساز کو نا اہلی سے بچنے کے لئئے قومی اہمیت کے حامل ڈیم منصوبہ میں مبلغ تیس لاکھ سکہ رائج الوقت حصہ ڈالنے کا حکم دے دیا۔ یہ ہے نیا پاکستان جس میں پارٹی پالیسیاں اور ملکی قانون کو اتنے تخلیقی انداز میں استعمال میں لایا گیا کہ جس سے جرم کا ارتکاب کرنے والے کودنیاوی طور پر سزا بھی ملی اور اس کی اخروی زندگی کے لئئے ثواب بھی۔ ظلم سہنے والے کی داد رسی کیسے ہوئی ہوگی یہ اللہ ہی جانے لیکن اس نے پانچ تھپڑ سہ کر اس قوم کو مجموعی طور پر پینتیس لاکھ روپے کا فایدہ پہنچایا۔ یہی کرشمہ ہے اس نئے پاکستان کا جس میں ظالم اور مظلوم دونوں کو ملک کی فلاح و بہبود میں حصہ ڈالنے کا برابر موقع ملتا ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران قانون کی تشریح کرنے والے قاضی نے اپنی کرسیِ عدل پر بیٹھ کرکٹہرے میں کھڑے قانون ساز کو چیلنج کیا کہ ’ میں عدالت سے باہر آتا ہوں، اگر ہمت ہے تو مجھے تھپڑ مار کے دکھاؤ‘۔ اس ڈاییلاگ سے نئے پاکستان کی رعایا کو ایک پیغام پہنچا دیا گیا کہ اے رعایا! قانون صرف اس کے بنانے والوں، نافز کرنے والوں اور اس کی تشریح کرنے والوں کا ایک تفریحی کھیل ہے۔ تمہاری حیثیت تو ڈیڈ گوٹ پولو کے کھیل میں کام آنے والی بکری کی سی ہے، جس کی قسمت میں پولو کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں چیر پھاڑ لکھی جا چکی ہے۔ تمہارا ملک پرانا ہو یا نیا یا مزید نیا تمہیں اسی طرح کی زندگی پہ صبر شکر کرنا ہوگا۔ جیسی ہم تمہیں جینے کی اجازت دیں گے۔

اس قانون ساز کو پارٹی کی رکنیت سے برخاست کیا جا سکتا تھا، عدلیہ اسے بطور ممبر پارلیمنٹ نا اہل قرار دے سکتی تھی۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ پارٹی نے پارٹی نے اس لئے برخاست نہیں کیا کہ زد و کوب ان کی نظر میں معمولی واقعہ تھا اور ویسے بھی نئے پاکستان کے شہری اور قانون ساز کی آپس کی بات تھی۔ عدلیہ کی منطق بہرحال سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں اسے نا اہل قرار نہیں دیا گیا۔

عدالتِ عظمی ہمیشہ وسیع تر قومی مفاد میں فیصلے کیا کرتی ہے۔ اور جس کے خلاف فیصلہ دینا ہو، اس کی کوئی حیثیت ہو۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ ممبر پارلیمان ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر یا وزیرِ اعظم بھی ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی نا اہلی کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ خالی ہو جاتی، جس پر ضمنی انتخاب کا جھنجٹ کرنا پڑتا اور قومی خزانے پر بوجھ پڑتا۔

تیسری وجہ یہ کہ اگر اس سے پینتیس لاکھ وصول نہ کئے جاتے تو قوم اس خطیر رقم سے محروم رہ جاتی جو اب ایدھی سینٹر اور ڈیم کے کام آئے گی۔

نئے پاکستان کی ایک اور کرامت دیکھئے، تھپڑ کھانے والا اور مارنے والا دونوں ہی قوم کے وسیع تر مفاد میں کارآمد ثابت ہوئے۔ تھپڑ خور بیک وقت مظلوم بن کے قوم کی ہمدردیاں بھی بٹور گیا اور مارنے والےسے پینتیس لاکھ روپے نکلوا کر غربا و مساکین کی دعاییں بھی۔ مارنے والے کو پینتیس لاکھ رقم کی اداییگی سے اگر دنیاوی طور پر سزا ملی تو اخروی زندگی کے لئئے ثواب بھی۔ نئے پاکستان کے شہری اس بات پر بھی یقیناً خوش ہوتے ہوں گے کہ خیراتی اداروں کو دیےؑ جانے والےعطیات جو پہلے صرف روزِ آخر میں درجات کی بلندی کے لئے دئے جاتے تھے اب دنیاوی درجات کی بلندی کے لئے بھی دئے جا سکیں گے۔
کہنے والے نے سچ کہا کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).