شامی خانہ جنگی: ایران، ترکی، اور روس کے صدور کے درمیان ملاقات
ایران، روس اور ترکی کے صدور ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں جہاں شام میں باغیوں کے آخری مضبوط گڑھ کے بارے میں فیصلہ متوقع ہے۔
اگر توقعات کے تحت ادلیب میں بڑے پیمانے کا جنگی محاذ کھولا جاتا ہے تو شدید انسانی بحران کے حوالے سے سخت خدشات پائے جاتے ہیں۔
اس سے قبل شام کے لیے امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ شامی حکومت کیمیائی حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ جمعے کی صبح باغی ٹھکانوں پر تازہ فضائی حملوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
ایران، ترکی اور روس نے شامی خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
باغیوں کی حمایت کرنے والے ترکی کو فکر ہے کہ بڑے پیمانے پر جنگ سے ان کی اپنی جنوبی سرحد پر پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔
روس اور ایران اب تک شامی حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں اور ان کو بقین ہے کہ باغیوں کو مکمل شکست دینی ضروری ہے۔
روسی طیاروں نے شام کے شمال مغربی علاقوں میں بمباری کی ہے اور ادھر شامی فوجی اس بڑے محاذ کی تیاریاں کررہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی مندوب جم جفری کا کہنا ہے کہ متوقع محاذ مسئلے کو غیر ذمہ دارانہ بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔
یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں جم جفری نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی تنبیہ کرنے کے لیے بہت مضبوط جواز ہیں۔
’کوئی بھی کارروائی ہماری نظر میں غیر ذمہ دارانہ بڑھاوا ہے۔ اس بات کے بہت سے شواہد ہیں کہ کیمیائی ہتھیار تیار کیے جا رہے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے ایسے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے۔
شامی حکومت نے کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا ہے۔
ادھر امریکی دفترِ خارجہ نے پیر کو خبردار کیا کہ شامی حکومت یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا امریکی حکومت جواب دے گی۔
شامی تردید کے باوجود اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ادلیب میں 2017 میں ہونے والے کیمیائی حملے کی ذمہ دار شامی حکومت ہی تھی۔
جم جفری کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے لیے بڑے پیمانے پر سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب تک دہشتگرد تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہو جاتی اور جب تک ایرانی جنگجؤ شام چھوڑ نہیں دیتے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں ملوث رہنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔
انھوں نے کہا کہ صدر بشار الاسد کا شام میں بطور حکمران کوئی مستقبل نہیں تاہم انھیں ہٹانا امریکی کا کام نہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ روس کے ساتھ کسی سیاسی منتقلی پر کام کرنے کے لیے رضامند ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ادلیب میں 30000 جہادی اور جنگجؤ موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق ادلب میں 29 لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں 10 لاکھ بچے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کہ مطابق اس حملے سے کم از کم آٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوں گے اور اس کی وجہ سے پہلے سہی امداد کے مستحق لاتعداد افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ شام کی تقریباً نصف آبادی کم از کم ایک مرتبہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
- ’نیتزہ یہودا‘: انتہائی قدامت پسند یہودی نوجوانوں پر مشتمل اسرائیلی فوج کے یونٹ کو ممکنہ امریکی پابندیوں کا سامنا کیوں ہے؟ - 24/04/2024
- برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی نوجوانوں کے ڈیٹنگ مسائل: ’ہمارے والدین کو نہیں معلوم کہ ہم خفیہ زندگیاں جی رہے ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).