جانور راج ؛ وحوشِ انگلستان کا ترانہ



” اور اب کامریڈز! میں آپ کو اپنے شبِ گذشتہ کے خواب کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں اس خواب کو آپ کے سامنے بیان ہی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسی سر زمین کا خواب ہے، جہاں سے انسان، غائب ہو چکا ہو گا لیکن اس سے مجھے ایک بھولی بسری بات یاد آگئی۔

سالوں پہلے جب میں ایک منا سا سور کا بچہ تھا، تب میری ماں دوسری سورنیوں کے ساتھ، ایک ایسا گیت گاتی تھیں، جس کے انہیں فقط دھن اورمکھڑے کے تین لفظ ہی آتے تھے۔ مجھے یہ اپنے چھٹپن سے ہی یاد تھی مگر مدت ہوئی کہ میں اسے بھلا بیٹھا تھا۔ مگر کل یہ کہیں سے میرے خواب میں آگیا اور نہ صرف آیا بلکہ ایسا آیا کہ اس گیت کے بول بھی، جو کہ مجھے یقین ہے گئے وقتوں کے جانور گاتے رہے تھے اور کئی نسلوں کو بھولے رہے تھے، وہ بھی یاد آ گئے۔ کامریڈز! اب میں وہ گیت گاؤں گا۔ میں بوڑھا ہوں، میری آواز بیٹھ چکی ہے مگر جب میں تم کو اس کی دھن سکھا دوں گا تو تم اسے خود ہی کہیں بہتر گا لو گے۔ اسے ’وحوشِ انگلستان کا ترانہ‘ یا ’انگلستان کے جانوروں کا ترانہ ‘ کہا جاتا تھا۔ ‘‘

بوڑھے میجر نے کھنکھار کے گلا صاف کیا اور گانا شروع کیا۔ جیسا کہ اس نے کہا تھا، اس کی آواز بیٹھی بیٹھی سی تھی، مگر اس نے خاصا ہی گا لیا اور بھئی کیا گرما دینے والی دھن تھی، کچھ کچھ، ’ ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘ اور ’ دیو انہاں نوں دھر رگڑا ‘ کے درمیان کی سی دھن، ایک کھوئی ہوئی انقلابی طرز۔ بول کچھ یوں تھے :

وحوشِ آئرش اور سارے انگریزی درندے
ہماری سب زمینوں اور زمانوں کے گزندے
ہمہ تن گوش ہیں سارے میری خوش کن خبر پر
کہ مستقبل میں وا ہو گا سنہری دور کا در

بہت ہی جلد آنے کو ہے وہ موقع خوشی کا
کہ الٹا جائے گا جب تخت، ظالم آدمی کا
ہمارے ہوں گے انگلستان کے سارے ثمر بس
بنیں گے مالک و مختار، ہم سب جانور بس

ہم اک دن کاٹ ڈالیں گے یہ نوکیلی نکیلیں
ہماری گردنیں، طوقوں کا کب تک بوجھ جھیلیں
یہ ساری آہنی زنجیریں، زنگ آلودہ ہوں گی
سو ہم پہ کوڑا زن رسمیں سبھی فرسودہ ہوں گی

ہماری سوچ سے ہو گا بلند اپنا ستارہ
بہم ہو گی بہت گندم بکثرت جو کا چارہ
بڑے خستہ چنے، بے حد ہری شبنم بھری گھاس
لذائذ سب میسر ہو ں گے، پوری ہو گی ہر آس

چمک اٹھیں گے انگلستان کے میدان سارے
سبھی دھاروں میں ہوں گے آبِ خالص کے نظارے
ہوائیں، نرم و نازک اور شیریں ہوں گی اس دن
ہماری فطرتیں، آزاد و خود بیں ہوں گی اس دن

ہمیں اس دن کی خاطر، حوصلہ کرنا ہے یارو
بھلے ہم اس سے پہلے مر مٹیں، ہمت نہ ہارو
سب اسپ و شتر و گاؤ اور سارے مرغ و ماہی!
حصولِ یومِ آزادی کے تم ہو سب سپاہی

وحوشِ آئرش، اور سارے انگریزی درندو!
ہماری سب، زمینوں اور زمانوں کے گزندو!
سنو سب اور پھیلا دو میری ایک اک بشارت
کہ مستقبل میں چمکے گی بہت جلد اپنی قسمت!
( منظوم ترجمہ رحمان فارس)

یہ گانا گاتے ہوئے، ساری جانور ایک عجیب وحشت و جوش میں مبتلا ہو گئے۔ میجر کے آخری بول گانے تک وہ سب اسے خود ہی گانے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے احمق ترین جانوروں نے بھی، دھن اور چند لفظ تو پکڑ ہی لئے تھے اور جہاں تک سیانوں کی بات تھی، جیسا کہ کتے اور سور، تو انہوں نے منٹوں کے اندر اندر ہی تمام ترانہ ازبر کر لیا تھا اور پھر ایک دو ابتدائی کوششوں کے بعد ہی پورا باڑہ، ’ وحوشِ انگلستان ‘ کے ترانے کی یک آواز گونج سے تھرا رہا تھا۔ گائیوں نے اسے ڈکرا یا، کتوں نے عف عفایا، بھیڑوں نے ممیایا، گھوڑوں نے ہنہنایا اور بطخوں نے قیں قیں کر کے گایا۔ وہ اس ترانے سے اس قدر راضی ہوئے کہ پانچ بار ایک تسلسل سے دہراتے چلے گئے اور عین ممکن ہے کہ پوری رات گاتے رہتے اگر انہیں درمیان میں ٹوک نہ دیا جاتا۔

بد قسمتی سے، غوغے نے جانی صاحب کو جگا دیا، وہ بستر سے یہ سوچ کے کودے کہ ہو نہ ہو، صحن میں لومڑ آ پڑا ہے۔ انہوں نے اپنی خواب گاہ کے کونے میں دیوار سے ٹکی رہنے والی بندوق اٹھائی اور دھائیں سے اندھیرے میں چھہ نمبر کے کارتوس داغ دیے۔ چھرے، باڑے کی دیوار میں پیوست ہو گئے اور جلسہ تتر بتر ہو گیا۔ سبھی اپنے اپنے شب باشی کے ٹھکانوں کو دوڑے۔ پرندے اپنے اپنے بسیروں کو لپکے اور جانور، پیال میں پڑ گئے اور چشم زدن میں سارا باڑہ پڑا سنا رہا تھا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: میجر کی انقلابی تقریرجانور راج : انقلاب آ گیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).